M
مرزا غلام احمد قادیانی کا فلسفہ طاعون اور اس کی سرگزشت
اس ہولناک مرض کے بارے میں جوملک میں پھیلتی جارہی ہے۔ لوگوںکی مختلف رائیں ہیں۔ ڈاکٹر لوگ جن کے خیالات فقط جسمانی تدابیر تک محدود ہیں۔ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زمین میں محض قدرتی اسباب سے ایسے کیڑے پیدا ہوگئے ہیں کہ اول چوہوں پر اپنا بداثر پہنچاتے ہیں۔ اور پھر انسانوں میں یہ سلسلہ موت کا جاری ہوتا ہے اور مذہبی خیالات سے اس بیماری کو کچھ تعلق نہیں۔ بلکہ چاہئے کہ اپنے گھروں اور نالیوں کو ہر ایک قسم کی عفونت سے بچائیں۔ اور صاف رکھیں۔ اور فینائل وغیرہ کے ساتھ پاک کرتے رہیں۔ اور مکانوں کو آگ سے گرم رکھیں… اور سب سے بہتر علاج یہ ہے کہ ٹیکہ کرالیں… اور بہتر ہے کہ کھلے میدانوں میں رہیں… بہرحال یہ تمام طریقے جو ڈاکٹری طورپر اختیار کئے گئے ہیں نہ تو کافی اور پورے تسلی بخش ہیں اور نہ محض نکمے اور بے فائدہ ہیںاور چونکہ طاعون جلد جلد ملک کو کھاتی جاتی ہے۔ اس لئے بنی نوع کی ہمدردی اسی میں ہے کہ کسی اور طریق کو سوچا جائے جو اس تباہی سے بچا سکے۔
جو فرقے حضرت حسین یا علیؓ کو قاضی الحاجات سمجھتے ہیںاور محرم میں تازیوں پر ہزاروں درخواستیں مرادوں کے لئے گزارتے ہیں اور یا جو مسلمان سید عبدالقادر جیلانیؒ کی پوجا کرتے ہیں یا جو شاہ مدار یا سخی سرور کو پوجتے ہیں۔ وہ کیا کریں اور کیا اب یہ تمام فرقے دعائیں نہیںکرتے بلکہ ہر ایک فرقہ خوفزدہ ہو کر اپنے اپنے معبود کو پکار رہا ہے… میرے استاد ایک بزرگ شیعہ تھے۔ ان کا مقولہ تھا کہ وباء کا علاج فقط تولاً اور تبریٰ ہے۔ یعنی ائمہ اہل بیت کی محبت کو پرستش کی حد تک پہنچا دینا اور صحابہؓ کو گالیاں دیتے رہنا۔ اس سے بہتر کوئی علاج نہیں۔ اور عیسائیوں کے خیالات کے اظہار کے لئے ابھی ایک اشتہار پادری وائٹ بربخت صاحب اور ان کی انجمن کی طرف سے نکلا ہے اور وہ یہ کہ طاعون کے دور کرنے کے لئے اور کوئی تدبیر کافی نہیں۔ بجز اس کے کہ حضرت مسیح کو خدا مان لیں۔ اور ان کے کفارہ پر ایمان لے آئیں۔
اور ہندوؤں میں سے آریہ لوگ یہ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ یہ بلائے طاعون وید کے ترک کرنے کی وجہ سے ہے۔ ہم تمام فرقوں کو چاہئے کہ ویدوںکی سست ودیا پر ایمان لائیں اور تمام نبیوں کو نعوذ باﷲ مفتری قرار دیں۔ تب اس تدبیر سے طاعون دور ہوجائے گی۔ اور ہندوئوں میں سے جو سناتن دھرم فرقہ ہے۔ اس فرقہ میں دفع طاعون کے بارے میں جو رائے ظاہر کی گئی ہے وہ