عزوجل نہیں بھیجا گیا تھا۔ جس کی تصدیق سورہ القصص کی آیات ۴۵،۴۶؍ سے بالکل وضاحت کے ساتھ اور مدلل طریقے پر ہوجاتی ہے اور کسی شک وشبہ اور بے جا تاویل کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔
’’وما کنت بجانب الطور اذ نادینا ولکن رحمۃً من ربک لتنذر قوماً ما اٰتٰہم من نذیر من قبلک لعلہم یتذکرون۔ ولولا ان نصیبہم مصیبۃ بما قدمت ایدیہم فیقولوا ربنا لولا ارسلت الینا رسولاً فنتّبع اٰیٰتک وتکون من المؤمنین‘‘ اس آیت مبارکہ سے بالکل واضح طورپر ثابت ہوگیا ہے کہ کفار مکہ کے پاس صرف آنحضرت رسول اﷲﷺ ہی ڈرانے کے لئے مبعوث کئے گئے تھے اور جیسا کہ قرآن حکیم احادیث صحیحہ متواترہ اور اجماع سے ثابت ہے کہ آپﷺ کی بعثت تمام بنی آدم کے لئے ہوئی تھی تو پھر کیا مرزا قادیانی کی مندرجہ بالا مزعومہ وحی، اﷲ عزوجل پر افتراء نہیں ہے۔ اور کیا مرزا قادیانی اس مزعومہ وحی کے انکشاف اور عوام میں مشتہر کرکے مفتری نہیں ٹھہرے۔
پس صاف ظاہر ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی پر کوئی وحی منجانب اﷲ عزوجل نازل نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ تمام تر ان کے دماغ کی گونج اور اپنی بنائی ہوئی باتیں ہیں۔ پھر اگر بالفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ بقول مرزا قادیانی ان کی طرف اس مضمون کی وحی آئی تھی تو وہ اپنے متن اور معنی کی رو سے نہ تو اسلام کے فروغ کے لئے تھی اور نہ ہی مسلمانوں کی اصلاح کے لئے تھی اور نہ ہوسکتی تھی۔ بلکہ وہ کسی ایسی قوم کے لئے تھی جن کے باپ دادا اس وقت تک ڈرائے نہیں گئے تھے۔ اور وہ یقینا کوئی غیر مسلم قوم ہی ہوسکتی تھی۔ کیونکہ مسلمانوں کے لئے چودہ سو برس پہلے ایک عظیم الشان اور عالی مرتبت ڈرانے والے آچکے تھے۔