پس مرزا قادیانی کو اپنی اس مزعومہ وحی کی تعمیل میں کسی غیر مسلم قوم کی تلاش کرنا ضروری تھا۔جیسا کہ انہوں نے کیا اور ان کے متبعین ابھی تک کررہے ہیں۔ مرزا قادیانی کے تاثرات سے جو کہ انہوں نے (نصرت الحق ص۵۱،۵۴؍مشمولہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، خزائن ج۲۱ ص۷۶۶، ۶۹ ملخص) میں لکھتے ہیں۔ صاف طور پر ثابت ہے کہ ان کی ماموریت کسی غیر مسلم قوم کے لئے ہوئی تھی۔ اس وحی کے نازل ہونے پر مجھے یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ ہر مامور کے لئے مشیت الٰہیہ کے موافق جماعت کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اس کا ہاتھ بٹائیں۔ اور اس کے مددگارہوں اور مال کا ہونا ضروری ہے تاکہ دینی ضرورتوں میں جو دقتیں پیش آتی ہیں۔ خرچ ہو اور مشیت الٰہیہ کے موافق اعدأد کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ ان کے شر سے محفوظ رہیں۔
جبکہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ مرزا قادیانی کی مزعومہ ماموریت بزعم خود غیر مسلموں کے لئے تھی۔ تو جن مسلمانوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کو کسی بھی حیثیت سے قبول کیا ہے اور اب بھی کررہے ہیں وہ سب کے سب لازمی طور پر فعل ارتداد کے مرتکب ہو کر دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے ہیں اور یوں غیر مسلم بن گئے ہیں۔ اور اب وہ تمام انعامات محمدیہ سے یکسر محروم ہوگئے ہیں اور ان کو نہ تو اپنے آپ کو مسلمان کہنے اور کہلوانے کا کوئی حق باقی رہا ہے اور نہ ہی ان کو کسی ایک بھی اسلامی شعار اپنانے کا کوئی حق باقی رہا۔ ’’فاعتبروا یااولی الابصار‘‘
آخیر میں گزارش ہے کہ ہر مرزائی کے لئے یہی بہتر طریقہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوتاہیوں اور گمراہیوں سے صدق دل سے تائب ہوکر پھر سے سچے اور حقیقی اسلام میں داخل ہوجائے تاکہ عاقبت بخیر ہو، دگر خسران ہی خسران ہے بلکہ خسران عظیم۔ وما علینا الا البلاغ! خلیل الرحمن قادری، مورخہ ۸؍جون ۱۹۸۶ئ، ۹؍۷۹حسنین سٹریٹ، ٹنچ بھاٹہ راولپنڈی!