چوک اور فروگذاشت ہے جس کی اصلاح وتنبیہ اﷲ تعالیٰ اپنے رحم وکرم اور لطف وعنایت سے فرما دیتا ہے۔ اس کے لئے استغفار کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ (ص۱۱۹)
حدیث شریف زیر بحث خبر احاد نہیں ہے کہ کسی عیسائی نے اپنی طرف سے بنا کر صحیح بخاری شریف میں لگا دی ہے۔ بلکہ اول تو متفق علیہ ہے اور پھر تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ مزید احادیث کے حوالے درج کئے جاتے ہیں۔ تاکہ ثابت ہوجائے کہ تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے۔
۱… (صحیح بخاری شریف جلد دوم حدیث نمبر۵۶۶)
۲… (صحیح بخاری شریف ج۲ حدیث۵۸۷)
۳… (صحیح بخاری شریف ج۳ حدیث۱۴۸)
۴… (صحیح بخاری شریف ج۲ حدیث۱۷۸)
۵… (صحیح بخاری شریف ج۳ حدیث نمبر۳۰۷)
۶… (صحیح بخاری شریف جلد دوم باب شفاعت کا ثبوت ص۳۱۱، ص۳۳۱، ص۳۳۷، ص۳۴۱، ص۳۴۴)
مزید براں مرزا قادیانی نے بھی ایک موقع پر یوں دعا مانگی ہے ؎
اے خداوند من گناہم بخش
سوئے درگاہ خویش راہم بخش
(براہین احمدیہ ص۷، خزائن ج۱ ص۱۶)
خط نمبر۵…۱… اولاً اس روایت کی رو سے حق شفاعت صرف آنحضرتﷺ کو دیا گیا ہے اور کوئی نبی خواہ متاخرین سے ہو یا متقدین سے اس حق کا حامل نہیں۔
جواب… صحیح مسلم شریف میں باب شفاعت کا ثبوت اور موحدوں کا جہنم سے نکالا جانا۔ ص۳۴ کے تحت جملہ احادیث اس موضوع پر درج کی گئی ہیں۔
دوم… یہ کہ اﷲ عزوجل نے آنحضرت محمدﷺ کی قرآن حکیم میں یوں بیان فرمائی ہے: ’’وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمین‘‘ {یعنی اے حبیب ﷺ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔} اور شفاعت بھی رحمت کے ضمن میں آتی ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اﷲ عزوجل نے ایسا کلام کسی اور نبی علیہ السلام کے لئے نہیں کیا ہے۔