سوم… یہ کہ قرآن حکیم میں ارشاد الٰہی ہے: ’’قل یاایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا (الاعراف۱۵۸)‘‘{یعنی اے حبیبﷺ! آپ فرما دیجئے کہ اے تمام لوگوں میں تم سب لوگو کی طرف اﷲ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔} یہ اعزاز اﷲ عزوجل نے کسی اور نبی علیہ السلام کو نہیں دیا۔ معلوم ہونا چاہئے تمام انبیاء علیہم السلام آنحضرت محمدﷺ سے پہلے یعنی متقدمین میں ہیں۔ کیونکہ وحی الٰہی نے قرآن حکیم میں جہاں کہیں بھی اپنے رسول بھیجنے کا ذکر کیا ہے۔ ان پر من قبلک ہی فرمایا ہے۔اور آپﷺ کے بعد کا کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔ لہٰذا متاخرین کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سوال… عدم ذکر سے عدم شے لازم نہیں ہوتا؟
جواب… پہلے تو آیت مبارکہ ملاحظہ فرمائیے۔ ’’ہل اتیٰ علی الانسان حین من الدہر لم یکن شیاً مذکورا (الدھر)‘‘ یعنی انسان پر زمانے میںایک ایسا وقت وہ بھی تھا کہ وہ قابل ذکر شے نہ تھا۔ مطلب یہ ہوا کہ انسان چونکہ معدوم تھا۔ بہ ایں وجہ اس کا ذکر بھی نہیں تھا۔ دوم یہ کہ مرزا قادیانی کا ایک قول مل گیا ہے جس کا ماننا ہر قادیانی پر فرض اولین ہے۔ فرماتے ہیں اور اتھروں وید کی نسبت تو اکثر محقق پنڈ توں کااس پر اتفاق ہے۔ کہ وہ ایک جعلی ویدیا براہمن یشک ہے جو پیچھے سے ویدوں کے ساتھ ملا دیا گیا ہے اور یہ رائے سچی بھی معلوم ہوتی ہے کہ کیونکہ رگ وید میں جو سب ویدوں کا اصل الاصول اور سب سے زیادہ معتبر خیال کیا جاتا ہے۔ موصوف رگ ویدہ بحرویہ اور سام وید کا ذکر ہے اور اتھروں وید کا نام تک درج نہیں ہے۔ اگر وہ وید ہوتا تو اس کا ذکر ضرور ہوتا۔ (براہین احمدیہ حاشیہ نمبر۸ ص۱۰۸، خزائن ج۱ص۹۹)
مرزا قادیانی نے ایک کلمہ بتا دیا ہے۔ بالکل اس نہج پر خیال کرلیجئے کہ اگر مرزا قادیانی نبی ہوتے تو ان کا بھی ذکر ضرور ہوتا۔
سوال… اس روایت کی مکمل سند لکھیں۔
جواب… حدیث زیربحث میں شروع میں راویان کا مکمل حوالہ درج کردیا گیا تھا اور آخر میں حدیث کا صحیح اور مکمل حوالہ دے دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اور کیا سند چاہئے۔ والسلام علی من اتبع الہدیٰ!