رتبۂ اطاعت پرقناعت کرلینے پر تنبیہ اور مزید اطاعت کا مطالبہ ہے۔ تاکہ وہ اس کے مزید تقرب کا ذریعہ بن سکے۔ آنحضرتﷺ کو خطاب ہوتا ہے:’’اذا جاء نصر اﷲ والفتح ورأیت الناس یدخلون فی دین اﷲ افواجا، فسبح بحمد ربک واستغفرہ انہ کان توابا(نصر)‘‘{یعنی جب اﷲ کی مدد آچکی اور (مکہ) فتح ہوچکا اور لوگوں کو اﷲ کے دین میں گروہ درگردہ جاتے دیکھ چکا تو اپنے پروردگارکی پاکی بیان کر اور اس سے معافی چاہ کہ وہ بندے کے حال پر رجوع ہونے والا ہے۔ غور کرو کہ خدائی مدد آنا مکہ فتح ہونا، بت پرستی کی بیخ کنی اور لوگوں کا مسلمان ہوجانا کوئی جرم ہے جس سے کوئی معافی چاہے؟اس طرح سورہ فتح میں فرمایا: ’’انا فتحنا لک فتحاً مبینا لیغفر لک اﷲ ماتقدم من ذنبک وماتاخرویتم نعمتہ علیک یہدیک صراطاً مستقیماً وینصرک اﷲ نصرا عزیزاً (فتح)‘‘ یعنی ہم نے تجھ کو کھلی فتح دی تاکہ اﷲ تیری اگلی پچھلی خطا کو معاف کرے اور اپنا احسان تجھ پر پورا کرے اور تجھ کو سیدھی راہ پر چلائے اور تجھ کو مضبوط مدد دے۔ دوبارہ غور کرو کہ مکہ کی فتح کامل نصیب ہونے کو حضور کی معافی سے بجز اس کے کیا تعلق ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندہ کے حسن خدمت کو قبول فرما کر اپنی خوشنودی کا اظہار فرماتا ہے۔ اس استغفار سے مقصود نعوذ باﷲ پیغمبر کی گناہگاری کا ثبوت نہیں بلکہ اس کی عبدیت کاملہ کا اظہار ہے۔ (ص۱۱۶)
الغرض انبیاء علہیم السلام کا خدا کے حضور میں اپنی کوتاہی کا اعتراف ا ن کی گنہگاری کا ثبوت نہیں بلکہ ان کی عبدیت کاملہ کاا ظہار ہے۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ کاکسی پیغمبر کی نسبت یہ فرمانا کہ میں نے تجھے معاف کیا۔ اس کی گناہ گاری کا اعلان نہیں۔ بلکہ اپنی پسندیدگی رضاا ور قبول تام کی بشارت ہے۔ (ص۱۱۷)
لیکن ذنب کا اطلاق ان کاموں پر بھی ہوتا ہے جو درحقیقت عام امت کے لئے گناہ نہیں لیکن انبیاء علیہم السلام کے حق میں اتنی غفلت بھی مواخذہ کے قابل ہے۔ اسی معنی میںکہا گیا ہے۔ ’’حسنات الأبرار سیّئات سیاق المقربین (ص۱۱۸)‘‘ انبیاء علیہم السلام کے استغفار کے موقع پر ہمیشہ ذنب کا لفظ استعمال ہوا ہے، جرم، اثم یا خطاء کا نہیں۔ ذنب کا لفظ بھول چوک اور غفلت سے لے کر عصیان تک کو شامل ہے۔ اس لئے کسی نبی کو اگر خدا کی طرف سے استغفار ذنب کی ہدایت کی گئی توا س کے لئے صریح عصیان وگناہ کے نہیں بلکہ یہی انسانی بھول