حکیم ابوالحسین بغدادی کا بیان ہے کہ حسین بن زکرویہ قرمطی کی ہلاکت کے ایام میں ایک عورت میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے شانے پر بہت گہرا زخم ہے۔ اس کا علاج کیجئے۔ یہ عورت زاروقطار رو رہی تھی اور سخت غمزدہ تھی۔ میں نے پوچھا تمہارا کیا ماجرا ہے اور زخم کس طرح آیا ہے؟ بولی میرا بیٹا بہت مدت سے مفقود تھا۔ میں نے اس کی تلاش میں دنیا بھر کی خاک چھانی اور بہت سے شہروں اور قصبوں میں پھری۔ لیکن کوئی کھوج نہ ملا۔ آخری مرتبہ شہر رقہ سے چلی تو راستہ میں قرمطی لشکر نظر آیا۔ میں لشکر میں جاکر دیکھ بھال کرنے لگی تو اتفاق سے وہیں مل گیا۔ میں نے خیر خیریت نہ بھیجنے کا شکوہ کرتے ہوئے اس کے خویش واقارب کے حالات بیان کرنے شروع کئے۔ وہ کہنے لگا ان قصوں کو جانے دو۔ مجھے بتاؤ کہ تم کس دین پر ہو؟ میں نے کہا کیا تجھے معلوم نہیں کہ ہم دین اسلام کے پیرو ہیں؟ بولا جس دین پر ہم پہلے تھے وہ باطل ہے۔ سچا دین وہ ہے جس کا میں آج کل پیروہوں یعنی قرمطی دین۔ یہ سن کرمیرے ہوش اڑ گئے اور وہ مجھے استعجاب میں چھوڑ کر چل دیا۔
میں چند روز ایک ہاشمی خاتوں کے پاس رہی جو قرمطیوں کی قید میں تھی۔ اس کے بعد بغداد واپس آنے لگی۔ جب تھوڑے فاصلے پر پہنچی تو میرا ناخلف بیٹا پیچھے سے دوڑتا آیا اور سخت بے رحمی اور شقاوت سے مجھ پر تلوار کا وار کیا۔ میں بری طرح مجروح ہوئی۔ اگر ساتھ والے دوڑ کر بچانہ لیتے تو میری جان کی خیر نہ تھی۔ میں وہاں سے افتاں وخیزاں بحال تباہ بغداد پہنچی۔ ابھی حال میں جو قرمطی قیدی بغداد آئے ہیں میں نے اپنے ناہنجار بیٹے کو بھی دیکھا۔ وہ لمبی ٹوپی پہنے اونٹ پر سوار تھا۔ میں نے اس سے خطاب کر کے کہا خدا تیرا برا کرے اور اس قید محن سے تجھے کبھی مخلصی نہ دے۔ (تاریخ کامل ابن اثیر ج۷ ص۱۷۳)
سقوط بغداد پر قادیان میں چراغاں
اور دور نہ جائیے! غلام احمد قادیانی اور اس کی امت کو دیکھ لیجئے۔ ان کے باطن میں عداوت اسلام کا آتشکدہ کس شدت سے شعلہ زن ہے۔ جب یورپ کی پہلی عالمگیر جنگ میں فخر البلاد بغداد پر صلیب پرست انگریزوں کا قبضہ ہوا تو دنیا بھر کے اسلامی حلقوں میں ہرطرف صف ماتم بچھی تھی اور کوئی مسلمان ایسا نہ تھا جو سوگوار نہ ہو۔ لیکن مرزائی اس پر خوشیاں منارہے تھے اور قادیان میں چراغاں ہورہا تھا۔ قادیان کے اخبار الفضل نے لکھا: ’’میں اپنے احمدی بھائیوں کو جوہربات میں غور اور فکر