ہے۔ یہ ملاعنہ نہ صرف اپنے متبعین کو مرتد کر کے ان کی کشتی ایمان کو غرق کرتے ہیں۔ بلکہ اپنے کو نہ ماننے والے جرم ناآشنا مؤمنین کو بھی تہس نہس کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے اور محض اس قدر نہیں بلکہ اپنی اسلامی حکومت سے بغاوت کر کے اور سالہا سال تک حکمرانوں کو رزم وپیکار کی مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا رکھتے ہیں۔ اگر یہی جانی اور مالی طاقت جو دجالوں نے اپنے حکام کے مقابلہ میں خرچ کی اور وہ طاقت جوان دجالوں کی مدافعت میں حکام کو صرف کرنی پڑی، وہ قوم کی فلاح وبہبود اور تعمیر وترقی کے کام آتی یا بیرونی اعدائے دین کے مقابلہ میں صرف ہوتی تو قوم اوج وعروج کی انتہائی منزلیں طے کر سکتی تھی۔
ان غداروں کی مارآستینی یہ رنگ لائی کہ اسلامی حکومتیں اغیار کے مقابلہ میں ہمیشہ پستی اور تنزلی کے گڑھے میں پڑی رہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ داخلی اعدائے ملت تمام بیرونی دشمنان دین سے بھی زیادہ خوفناک ہیں۔ کیونکہ مارآستین انسان کو جتنا نقصان پہنچا سکتا ہے بیرونی دشمن سے اس کا عشر عشیر بھی متصور نہیں۔ پس ظاہر ہے کہ وہ حکام بھی دجالی شروروفتن کے شیوع کے ایک بڑی حد تک ذمہ دار ہیں جنہوں نے ان فتنوں کو پنپنے کا موقع دیا اور قوت پکڑنے سے پہلے ہی ان کو مستاصل نہ کر دیا۔ جس پودے کی جڑیں ہنوز مضبوط نہ ہوئی ہوں اس کا اکھاڑ پھینکنا نہایت آسان ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ مضبوط ومستحکم ہو جائے اور اس کی جڑیں دوردور تک پھیل جائیں تو اس کی بیخ کنی بہت مشکل ہے۔
پس مسلم حکمرانوں کا فرض ہے کہ جونہی کوئی بوالہوس کوئی دجالی دعویٰ کر کے فضا کو مکدر کرنا شروع کرے فوراً اس کو کچل کے رکھ دیں اور نہ صرف خدا کی کمزور مخلوق کو اس دست بردسے بروقت بچالیں۔ بلکہ اپنے آپ کو بھی اس کی آیندہ مارآستینوں سے محفوظ کر لیں۔
مادر مشفقہ پر مرتد بیٹے کا قاتلانہ حملہ
تقدس کے جھوٹے مدعی اور ان کے پیرو جو اسلام سے علاقہ توڑ کر کوئے ضلالت میں سرگشتہ وحیران ہوتے ہیں ان کے دل میں یہودونصاریٰ سے بھی کہیں زیادہ اسلام اور اہل اسلام کی عداوت کا جذبہ موجزن رہتا ہے۔ یہاں ایک سیاہ دل قرمطی کا واقعہ لکھا جاتا ہے جس نے مرتد ہونے کے بعد اپنی واجب الاطاعت مادر مشفقہ پر محض اس قصور میں قاتلانہ حملہ کیا تھا کہ وہ دین حنیف کی پرو تھی۔