کرنے کے عادی ہیں۔ ایک مژدہ سناتا ہوں کہ بصرہ اور بغداد کی طرف جو اﷲتعالیٰ نے ہماری محسن گورنمنٹ کے لئے فتوحات کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس سے ہم احمدیوں کو معمولی خوشی نہیں ہوئی بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں برسوں کی خوشخبریاں جو الہامی کتابوں میں چھپی ہوئی تھیں آج ۱۳۳۵ھ میں ظاہر ہوکر ہمارے سامنے آگئیں۔ اس بات سے غیراحمدی (یعنی مسلمان) ناراض ہوں گے۔ لیکن اگر غور کریں تو اس میں ناراضگی کی کوئی بات نہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۱۷ئ)
مسلمانوں سے کلی مفارقت اور قطع تعلق
غلام احمد قادیانی نے لکھا کہ: ’’تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعوائے اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑے گا۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۸ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۶۴)
اور خلیفہ محمود احمد نے لکھا: ’’سوم یہ کہ کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (غلام احمد قادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ میرے عقائد ہیں۔‘‘
(آئینہ صداقت مؤلفہ خلیفہ محمود ص۳۵)
اور لکھا کہ: ’’ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیراحمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے ایک نبی (یعنی غلام احمد قادیانی) کے منکر ہیں۔ یہ دین کا معاملہ ہے۔ اس میں کسی کا اپنا اختیار نہیں کہ کچھ کر سکے۔‘‘ (انوار خلافت مؤلفہ خلیفہ محمود ص۹۰)
قادیانی دل یگانوں کی مہرو محبت سے خالی
جب غلام احمد قادیانی نے اپنی خانہ زاد مسیحیت کا نغمہ چھیڑا تو ظاہری مفارقت وانقطاع کے ساتھ ہی اس کا دل یگانوں کی مہرومحبت سے یکسر خالی ہوگیا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی بیاہتا بیوی محترمہ حرمت بی بی کی جو خان بہادر مرزاسلطان احمد کی والدہ تھیں اور اپنے فرزند مرزافضل احمد کی نماز جنازہ تک نہ پڑھی خدائے برتر مسلمانوں کو تمام دجالوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین! آج مورخہ ۲۶؍ذیقعدہ ۱۳۷۵ھ، مطابق ۶؍جولائی ۱۹۵۶ء کو بروز جمعہ بمقام لاہور یہ کتاب بحمداﷲ پایہ تکمیل کو پہنچی۔ ناچیز ابوالقاسم رفیق دلاوری!
ض … ٭ … ض