تھے اور ان کا قیام امن عامہ کے لئے سخت مضر تھا۔ اس لئے تمام بابی رجب ۱۲۸۰ھ میں استنبول سے ادرنہ (اڈریانوپل) بھیج دئیے گئے۔ یہ لوگ ۲۰؍ربیع الثانی ۱۲۸۵ھ تک یعنی پانچ سال سے زیادہ مدت ادرنہ میں رہے۔ ادرنہ میں صبح ازل اور بہاء اﷲ میں جھگڑے قضیے برپا رہتے تھے۔ دونوں میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ تھا کہ وہی باب کا اصل جانشین ہے۔ جب نزاع نے خوفناک صورت اختیار کی اور یقین آمادۂ پیکار ہیں تودولت عثمانیہ نے اس قضیہ میں پڑے بغیر کہ فریقین ہوا کہ فریقین میں سے حق پر کون ہے، بہاء اﷲ اور اس کے پیروؤں کو عکہ علاقہ شام میں جاکر قیام کرنے کا حکم دیا اور صبح ازل اور اس کے متعلقین کو جزیرہ قبرص میں جو اس وقت ترکی عملداری میں تھا۔ جاکر ٹھہرنے کا حکم دیا۔ صبح ازل ۵؍ستمبر ۱۸۶۸ء کو جزیرہ قبرص پہنچا۔
مسیح موعود ہونے کا دعویٰ
جب سچے مہدی حضرت محمد بن عبداﷲ علیہ السلام مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ میں ظاہر ہوں گے تو ان کی فرمانروائی کے چند سال بعد خدا کے سچے مسیح حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے۔ مرزاعلی محمد باب ایک جھوٹا مہدی تھا۔ جھوٹے مہدی کے ظہور کے بعد کسی جھوٹے مسیح کی آمد بھی مناسب وموزوں تھی۔ اس ضرورت کا احساس کر کے بہاء اﷲ نے ایران چھوڑنے کے بعد، بغداد یا ادرنہ میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ بہاء اﷲ نے اپنی ایک وحی لکھی۔ ’’قل یاملأ الفرقان قداتیٰ الموعود الذی وعدتم فی الکتاب اتقوا اﷲ ولا تتبعوا کل مشرک اثیم (لوح مبارک ص۷)‘‘ {کہہ دے کہ اے گروہ فرقان! بیشک وہ موعود آگیا۔ جس کا تم سے آسمانی کتاب میں وعدہ کیاگیاتھا۔ خدا سے ڈرو اور کسی مشرک گنہگار کی پیروی نہ کرو۔}
اس الہام میں بہاء اﷲ نے ہر مسلمان کو اپنی مسیحیت کی طرف بلایا ہے۔ لیکن مسلمانوں کو جس خدا کے سچے مسیح کی آمد ثانی کا مژدہ سنایا گیا تھا وہ مسیح ناصری حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہیں جو قرآن کے رو سے اب تک زندہ موجود ہیں۔ ان کے سوا ہم ہر مدعی مسیحیت کو بہاء اﷲ ہو یا غلام احمد ہو دجال کذاب یقین کرتے ہیں۔
سچے مسیح موعود کی نسبت خود بہاء اﷲ کے فرزند وجانشین عبدالبہاء نے لکھا تھا۔ جب مسیح آئے گا تو نشانیاں اور فوق الفطرت معجزات شہادت دیں گے کہ سچا مسیح یہ ہے۔ مسیح نامعلوم شہر آسمان سے آئے گا۔ وہ فولاد کی تلوار کے ساتھ آئے گا اور لوہے کے عصا کے ساتھ حکومت کرے