حدیث نمبر۳۴۶… محمود عبدالرزاق ابن جریج سلیمان احول حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں۔ ان کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ آنحضرتﷺ جب رات کے تہجد پڑھتے تو یہ دعا کرتے… تو میرے اگلے اور پیچھے اور پوشیدہ ا ور ظاہر سب گناہ بخش دے۔ قرآنی آیات اور احادیث صحیح سے گزر کر اب کچھ اقتباسات علامہ سلیمان ندویؒ کی تصنیف سیرت النبی جلد چہارم سے درج کئے جاتے ہیں جو کہ تمام شکوک کو رفع کردیتے ہیں۔ قرآن پاک میں بعض ایسے الفاظ ہیں جن سے ایک ظاہر بین کو یہ دھوکا ہوسکتا ہے کہ بعض پیغمبروں کے دامن پر عدم معصومیت کے بھی داغ ہیں۔ مگر علمائے محققین نے ان میں سے ہر ایک شبہ کا تشفی بخش جواب دے دیا ہے جس سے ظاہر بینی کا پردہ آنکھوں کے سامنے سے ہٹ جاتا ہے اور اصل حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے… مختصراً اصولی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس مسئلہ میں جو غلط فہمیاں کسی کو پیش آتی ہیں۔ ان کے دو اسباب ہیں اور ان اسباب کی تشریح کردینا ہی ان دونوں غلط فہمیوں کو دور کردینا ہے۔ (ص۱۱۵)
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ انبیاء علیہم السلام کا پایہ بندوں میں بلکہ تمام مخلوقات میں خواہ کسی قدر بلند ہو اور ان کا دامن گناہ وعصیان کے گردوغبار سے کتنا ہی پاک ہوتا ہم اس ذوالجلال والاکرام کے سامنے ان کی حیثیت ایک عبد ایک بندہ ایک عاجز مخلوق ہی کی ہے۔ ایک عبدوغلام خواہ کسی قدر اطاعت کیش کتنا ہی وفاشعار اور مطیع وفرمانبردار ہوتا ہم اپنے آقا کے سامنے اس کو اپنے قصور کا معترف اپنی تقصیر کا قصر اپنی کوتاہیوں پر خجل اور اپنی فروگزاشتوں پر نادم ہی ہونا چاہئے۔ اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کی نیکی اور پاکی کی شہادت سے قرآن بھرا ہوا ہے۔ وہ خدا کی عظمت وجلال اور اس کی رحمت وشفقت کے ذکر میں فرماتے ہیں: ’’والذی اطمع ان یغفرلی خطیئتی یوم الدین (الشعرائ)‘‘ یعنی اور وہ خدا جس سے جزاء کے دن اپنی بھول چوک کی معافی کی پوری امید رکھتا ہے۔ نبی کا یہ اعتراف واقرار اور حجالت وندامت اس کا نقص نہیں بلکہ اس کی بندگی اور عبودیت کا کمال ہے اور آقا کو حق پہنچتا ہے کہ اس کے غلام اطاعت فرمانبرداری کے جس حیرت انگیز رتبے تک بھی پہنچے ہیں۔
وہ ان سے اطاعت کیشی اور وفاشعاری کے اس سے بھی بلند مرتبہ کا مطالبہ کرے کہ اس کے دربار میں ان کے عروج وترقی کی کرسی اور بھی اونچی ہوتی جائے۔ بعض آیتوں میں اگر کسی پیغمبر کو خدا سے مغفرت مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے تو اس کا سبب گناہ کا وجود نہیں بلکہ ہر قدم پر گزشتہ