اس کے بعد بابیوں نے خوب ہاتھ پاؤں نکالے اور مسلح بغاوتیں شروع کر دیں۔ جن کی تفصیل قارئین کرام کو کتاب ائمہ تلبیس (صفحات۳۸۷تا۳۹۴) ملے گی۔ اس وقت محمد شاہ والی ایران دنیا ئے فانی سے رخصت ہوچکا تھا اور ناصرالدین شاہ نیا اور نگ نشین سلطنت ہوا تھا۔ چونکہ بابیوں نے ایران میں ہلچل ڈال رکھی تھی۔ اس لئے اعیان سلطنت نے فیصلہ کیا کہ باب کو نذرانہ مرگ بنا دینا چاہئے۔ جب تک وہ زندہ ہے ایران میں فضا پر سکون نہ ہوگی۔ اب باب قلعہ چہریق سے دوبارہ تبریز لاکر مجلس علماء میں حاضر کیاگیا۔ علماء نے بہتیرا سمجھایا کہ تم اپنے الحاد اور دعوائے مہدویت سے توبہ کر کے سیدھے راستے پر آجاؤ۔ لیکن اس نے کسی کی ایک نہ سنی۔ کیونکہ ابلیسی کارندے اس کو وقتاً فوقتاً اپنی نورانی شکل وہیئت میں جلوہ گر ہو کر یقین دلا جاتے تھے کہ تم وہی مہدی موعود جو جس کے ظاہر ہونے کی پیغمبر خداﷺ نے آج سے ہزارسال پہلے بشارت دی تھی۔ چنانچہ باب اپنے تئیں سچا مہدی گمان کرتا تھا۔ اس لئے کوئی ترغیب وترہیب اس کے سامنے کارگر نہیں ہوتی تھی۔
حشمت الدولہ نے باب سے کہا تمہیں حامل وحی ہونے کا بھی دعویٰ ہے۔ اگر تم اس دعوے میں سچے ہو تو دعا کرو کہ کوئی آیت نازل ہو۔ جس طرح غلام احمد قادیانی نہایت عیاری سے قرآن کی آیتوں کو اپنا کر اپنا کلام وحی بنالیتا تھا۔ اسی طرح باب نے بھی یہی حرکت کی۔ جھٹ سورۂ نور کی ایک آیت کا ٹکڑا سورۂ ملک کی ایک آیت کے ٹکڑے سے ملا کر پڑھ دیا۔ حشمت الدولہ نے وہ کلمات لکھوالئے۔ پھر باب سے پوچھا کہ کیا یہ وحی آسمانی ہے۔ بولا ہاں! حشمت الدولہ نے کہا کہ وحی مہبط وحی کے دل سے فراموش نہیں ہوتی۔ اگر فی الواقع یہ کلام وحی ہے تو ذرا دوبارہ پڑھ دو۔ مثل مشہور ہے کہ دروغگورا حافظہ نہ باشد! جب باب نے ان الفاظ کو دوبارہ پڑھا تو الفاظ میں ردوبدل اور تقدم وتاخر ہوگیا۔ حشمت الدولہ نے کہا یہ تمہارے جھوٹ اور جہل کی بیّن دلیل ہے۔ آخر اس کے قتل کا حکم صادر ہوا۔
۲۸؍شعبان ۱۲۶۶ھ کا دن قتل کے لئے مقرر کیاگیا تھا۔ سب سے پہلے آقا محمد علی تبریزی کو اس غرض سے باندھا گیا کہ گولیوں کا نشانہ بنایا جائے۔ اسے ہزار سمجھایا گیا کہ اگر جان عزیز ہے تو توبہ کر کے رہا ہو جاؤ۔ لیکن اس نے توبہ نہ کی اور کہنے لگا عشق حق سے توبہ کرنا بڑا گناہ ہے۔ محمد علی کے خویش واقارب یہ کہہ کر حکام کی خوشامد کر رہے تھے کہ یہ دیوانہ ہوگیا ہے اور دیوانے