مدت کے بعد وہ مہدی ہونے کا مدعی ہوا۔ جوذی علم لوگ آغاز کار میں اس پر ایمان لائے۔ ان کو اکناف ایران میں اپنے نشریہ کے لئے پھیلا دیا اور خاص خاص قاصدوں کو سلاطین عالم کے پاس بغرض دعوت روانہ کیا۔ شیعی علماء نے اس کی تکفیر کی اور اس کے قتل وتدمیر کا فتویٰ دیا۔ ملک میں علی محمد کے خلاف سخت برہمی پھیل گئی۔ حسین خان حاکم فارس نے باب کے سرگرم داعی ملا صادق مقدس کو کوڑے لگوائے اور ملا صادق مرزا علی محمد بار فروشی اور ملا علی اکبر ستانی تینوں کی ڈاڑھیاں منڈوا کر انہیں کوچہ وبازار میں تشہیر کیا۔ اس کے بعد حاکم فارس نے علماء کی صوابدید پر باب کو طلب کیا اور اس کو علماء کی موجودگی میں بڑی سرزنش کی۔ اس کے جواب میں علی محمد بھی سخت کلامی پر اتر آیا۔ حاکم نے پیادوں کواشارہ کر دیا۔ وہ لاتوں اور گھونسوں سے باب کی تواضع کرنے لگے اور اس کو بہت بڑا ذلیل کیا۔
جب شاہ ایران محمد شاہ کو باب کے دعوائے مہدویت اور اس کے روز افزوں حلقہ اثر کا علم ہوا تو اس نے شیعہ مذہب کے بڑے مجتہد سید یحییٰ وارابی کو حکم دیا کہ شیراز جاکر باب کے دعوے کی حقیقت معلوم کرے۔ یحییٰ وارابی نے شیراز پہنچ کر باب سے ملاقات کی اور اس کی باتیں سن کر اس کا گرویدہ ہوگیا اور حلقہ مریدین میں داخل ہوکر مختلف بلاد وامصار کی سیاحت شروع کر دی اور بڑے طمطراق سے بابی مذہب کی اشاعت کی۔ ان ایام میں شہر زندان میں ملا محمد علی نام ایک شیعہ مجتہد کا طوطی بول رہا تھا۔ اس نے باب کی تحریریں پڑھیں تو اس پر غائبانہ ایمان لے آیا اور اسی دن بابیت کی دعوت دینے لگا۔ زنجات کے اکثر باشندے بابی ہوگئے۔
۲۱؍رمضان کی رات کو بعض مخالف اس کے مکان میں گھس گئے اور دشنام دہی کے بعد باب کو بہت بری طرح زدوکوب کیا۔ اسی طرح اس کے پیرو بھی بری طرح مارے پیٹے گئے۔ اس لئے باب شیراز سے اصفہان چلا گیا۔ منوچہر خان حاکم اصفہان اس کا معتقد ہوگیا اور درپردہ اس کا مذہب قبول کر لیا۔ اب باب کھلے بندوں اہل اصفہان کو اپنی مہدویت کی دعوت دینے لگا۔ تمام علماء اور حامیان مذہب نے مخالفت کی۔ اب بعض جوشیلے حامیان مذہب نے اس کی سرکوبی کا قصد کیا۔ باب کو معلوم ہوا تو وہ ایک سرائے میں چھپ گیا۔ لیکن منوچہر نے اس کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔ منوچہر نے علمائے اصفہان کو ذلیل اور لاجواب کرانے کی کوشش میں ایک مجلس مناظرہ قائم کی۔