داودوی کے پاس گیا جو کوہ ورن میں مقیم تھے۔ فقیہ یحییٰ کے شاگردوں اور پیروؤں کی تعداد بھی ہزاروں تک پہنچتی تھی۔ زیدان نے جاکر کہا آپ حضرات بحیثیت میری رعایا میں داخل ہیں۔ اب میں آپ کے پاس اپنی حاجت لے کر آیا ہوں اور وہ یہ ہے کہ دشمن نے مجھے میری سلطنت سے بے دخل کر دیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں میری مدد کرو۔ فقیہ ابوزکریا یحییٰ نے اس دعوت کو لبیک کہا اور ۸؍رمضان ۱۰۲۲ھ کو اپنے متبعین کی معیت میں مراکش کی طرف کوچ کر دیا۔ علامہ ابوزکریا یحییٰ نے مراکش کے مضافات میں پہنچ کر موضع جیلیر میں قیام کیا اور دوسرے دن مراکش پر چڑھ دوڑے۔ ابن ابی محلّی بھی مقابلے پر آیا۔ فقیہ کا لشکر اعداء کی صفوں میں گھس پڑا اور جو سامنے آیا اسے فنا کر کے رکھ دیا۔ غرض نسیم فتح فقیہ کے رایت کے میمون پر چلی۔ ابن ابی محلّی کو ہزیمت ہوئی اور وہ میدان جانستان کی نذر ہوا۔
جھوٹے مہدی کا سر شہر کے صدر دروازے پر
اب فقیہ ابوزکریا نے حکم دیا کہ ابن ابی محلّی کا سرکاٹ کر شہر کے صدر دروازے پر لٹکا دیں۔ معاً اس حکم کی تعمیل ہوئی۔ اسی طرح اس کے دام افتادوں کے سر بھی کاٹ کاٹ کر شہر کے دروازوں پر لٹکا دئیے گئے۔ اس کے بعد فقیہ صاحب مراکش کی سلطنت سلطان زیدان کے سپرد کر کے واپس آئے۔ ابن ابی محلّی اور اس کے پیروؤں کے سربارہ برس تک مراکش کے دروازوں پر لٹکے رہے۔ ابن ابی محلّی کے باقی ماندہ پیرو کہتے تھے کہ حضرت مہدی علیہ السلام قتل نہیں ہوئے۔ بلکہ کچھ مدت کے لئے نظروں سے غائب ہوئے ہیں۔
تین سال تک برسر حکومت رہنے کی پیشین گوئی
شیخ یوسی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ابن ابی محلّی اپنے استاد ابن مبارک کے پاس بیٹھا تھا۔ اتنے میں اچانک یہ کہنا شروع کیا کہ میں بادشاہ ہوں۔ میں بادشاہ ہوں۔ میں بادشاہ ہوں۔ استاد نے کہا احمد! مانا کہ تم بادشاہ ہو جاؤ گے۔ مگر یاد رکھو کہ اس اوج عروج کے بعد نہ تو تم زمین کو پھاڑ سکو گے اور نہ پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکو گے۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابن ابی محلّی صوفیوں کی ایک خانقاہ میں گیا اور کہنا شروع کیا کہ میں سلطان ہوں۔ میں سلطان ہوں۔ ایک صاحب وجدوحال صوفی صاحب اس کے جواب میں کہنے لگے کہ تین سال۔ تین سال، چوتھا نہیں۔ چنانچہ وہ تین ہی سال تک برسر حکومت رہا۔