فرقہ مہدویہ کی کتاب پنج فضائل میں مذکور ہے کہ مقام عیسوی پر پہنچ جانے کے باوجود حاجی محمد خراسانی کو اپنے پیرومرشد کی زندگی میں دعوائے مسیحیت کی جرأت نہ ہوئی۔ البتہ جونپوری کی رحلت کے بعد سندھ میں نگرٹھٹہ کی طرف جاکر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ حالانکہ سچے مسیح موعود علیہ السلام، حضرت مہدی علیہ السلام کے عہد عروج میں بذات خود جسد عنصری کے ساتھ دمشق کے شرقی مینار پر نازل ہوں گے۔ بہرحال جب خراسانی نے مسیحیت کا دعویٰ کیا تو یہ امر جونپوری کے فرزند وجانشین سید محمود پر سخت شاق گذرا۔
سید محمود نے دیکھا کہ اس کے باپ کا ایک معمولی مرید جھوٹے دعوے کی بدولت بام رفعت پر پہنچنے والا ہے تو اس کے دل میں اپنی دکانداری کے ماند پڑنے کے خدشہ سے حسد پیدا ہوا۔ اس بناء پر اپنے دو خاص مرید خراسانی کے قتل پر مأمور کئے۔ اس اثناء میں جب سندھ کے غیور حکمران کو معلوم ہوا کہ جونپوری کا ایک نام لیوا دعوائے مسیحیت کے ساتھ خلق خدا کو گمراہ کر رہا ہے تو اس نے خراسانی کو زیرحراست کرنے کا حکم دیا۔ آخر اس کا سر قلم کر کے عبرت روزگار بننے کے لئے شہر کی عام گزرگاہ پر لٹکادیا گیا۔ جب ان دو آدمیوں کو جو خراسانی کے قتل پر متعین ہوئے تھے معلوم ہوا کہ حاجی خراسانی مارا گیا ہے تو وہ سید محمود کے پاس واپس آگئے۔ شاہ دلاور مہدوی نے خراسانی کے قتل کی خبر سن کر بشارت دی کہ وہ ایمان سلامت لے گیا۔ غرغرہ کے وقت اس کی توبہ قبول ہوگئی اور سید محمود کو اس کی ہلاکت کی اطلاع ہوئی تو بولا کہ حاجی محمد نے مہدی علیہ السلام یعنی جونپوری کی تصدیق کی تھی۔ اس لئے ضائع نہ ہوا۔ (ہدیہ مہدویہ)
خوفناک انجام کا دھڑکا
اسلامی سلطنتوں میں تقدس کے دکانداروں سے یہی سلوک ہوتا رہا ہے جو خراسانی سے کیاگیا۔ اسی خوفناک انجام کے پیش نظر ہمارے قادیانی کو نہ تو حج کے لئے کبھی مکہ معظمہ جانے کی جرأت ہوئی اور نہ امیر عبدالرحمن والئی افغانستان کی دعوت پر کابل کا رخ کیا۔ غلام احمد نے امیرصاحب کو لکھ بھیجا تھا۔ میں مرسل یزدانی، مسیح زمان اور مہدی دوران ہوں۔ مجھ پر ایمان لاکر مجھ سے تعاون کرو۔ امیر صاحب نے اس کے جواب میں مرزاقادیانی کو لکھ بھیجا تھا کہ آپ بے کھٹکا افغانستان چلے آئیے۔ اگر کتاب وسنت کی روشنی میں آپ کے دعوؤں میں صداقت ہوگی تو نہ صرف میں خود بلکہ میری تمام رعایا بھی آپ کی پیروی کرے گی۔ لیکن باطل کی مجال نہیں تھی کہ ایک اسلامی قلمرو میں قدم رکھنے کا خطرہ گوارا کرتا۔
معلوم ہوا کہ کتاب ’’ہدیہ مہدویہ‘‘ کے صفحات ۱۷۲،۱۷۳ پر مدعی مسیحیت کا نام شیخ محمد