پھر الوہیت دونوں ضدوں کی حیثیت سے ناسوتیوں اور ابلیسیوں میں منتشر ہوئی اور چند روز بعد نوح علیہ السلام اور ان کے معاصر ابلیس میں جمع ہوئی۔ پھر منتشر ہوئی۔ اسی طرح مختلف انبیاء ورسل میں منتشر ہوتے ہوئے عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ابلیس میں مجتمعا ظاہر ہوئی۔ عیسیٰ کے بعد وہ حواریوں میں تقسیم ہوئی اور چند روز گذار کر حضرت علی مرتضیٰؓ اور ان کے معاصر ابلیس میں ظاہر ہوئی اور اب وہی الوہیت خود شلغمانی اور اس کے معاصر ابلیس میں نمایاں ہے۔
بدترین رفض والحاد
شلغمانی کا بدترین رفض اور حضرت علیؓ کی محبت کا غلو یہاں تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ جناب موسیٰ کلیم اور سیدنا محمد رسول اﷲ علیہا الصلوٰۃ والسلام کو (معاذ اﷲ) خائن بتاتا تھا اور کہتا تھا کہ ہارون نے موسیٰ کو اور علیؓ نے جناب محمد(ﷺ) کو لوگوں کی طرف بھیجا کہ ہماری شریعت کی دعوت دو۔ مگر ان دونوں نے ان کے ساتھ خیانت کی اور لوگوں کو غرض مفوض کی طرف بلانے کی جگہ اپنی دعوت دینی شروع کی۔
اس کے ساتھ ایک عجیب بات یہ تھی کہ شلغمانی کے نزدیک حضرات حسنؓ اور حسینؓ، حضرت علیؓ کے فرزند نہ تھے۔ کیونکہ اس کے اعتقاد کی رو سے حضرت علیؓ رب العالمین ہیں اور اس کے زعم میں جس پیکر میں ربوبیت مجتمع ہوکر نمودار ہوتی ہے اس کا نہ کوئی باپ ہوتا ہے اور نہ کوئی بیٹا۔ وہ تو خدا ہے اور خدا کی شان ’’لم یلد ولم یولد‘‘ ہے۔ شلغمانی کی تعلیم کے بموجب جنت اور دوزخ کا کوئی وجود نہیں۔ بلکہ شلغمانی کے مذہب کے ماننے اور اس کی معرفت کا نام جنت ہے اور اس کے مذہب سے انکار کرنے اور اس کے اصول سے جاہل رہنے کا نام دوزخ۔ ملائکہ سے اس کے زعم میں ہر وہ شخص مراد تھا جو عارف حق اور اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو۔
شلغمانی کہتا تھا کہ جو شخص اﷲ کے کسی دوست کی مخالفت کرے اور اس سے مقابلہ کرتا رہے وہ ماجور ہے۔ کیونکہ ولی کے فضائل کا اظہار اس کے بغیر صورت پذیر نہیں ہوسکتا کہ اس کا کوئی دشمن اس پر لعن طعن کرے۔ پس مخالف ولی سے افضل ہے۔ اسی بناء پر وہ جناب موسیٰ کلیم علیہ السلام سے فرعون کو اور حضرت سرور کائناتﷺ سے (معاذ اﷲ) ابوجہل کو اور حضرت علیؓ سے حضرت معاویہؓ کو افضل بتاتا تھا۔
شلغمانی شریعت کے انتہائی شرمناک احکام
یہ تو شلغمانی کے عقائد تھے۔ اب ذرا اس کے آئین مذہب کی شان ملاحظہ ہو۔ اس کا اعتقاد تھا کہ علیؓ نے جناب محمد(ﷺ) کو رسول بنا کر کبرآئے قریش اور جبابرہ عرب کے پاس