سے کیوں مخاطب کیا؟ اس نے جواب دیا کہ قرآن میں ہے کہ ’’ولا تزروا زرۃ وزر اخریٰ‘‘ (حق تعالیٰ ایک کے گناہ کا مواخذہ دوسرے سے نہیں کرتا) میں نے اپنی زبان سے یہ بات کبھی نہیں کہی کہ میں معبود اور رب الارباب ہوں۔
اس پر ابن عبدوس جس نے تھپڑ مارا تھا بولا ہاں یہ الوہیت کے مدعی نہیں ان کا تو یہ دعویٰ ہے کہ امام منتظر کے باب ہیں اور ابن روح کی جگہ پر ہیں۔ لیکن اس امر کی قابل وثوق شہادتیں پیش ہوئیں کہ ماخوذین کا انکارمحض دفع الوقتی اور خوف قتل پر مبنی ہے۔ ورنہ شلغمانی بالقطع خدائی کا مدعی ہے اور یہ کہ جب کبھی اس کے پیروؤں نے اسے ذات خداوندی سے متصف ومخاطب کیا ہے۔ اس سے اس نے انکارنہیں کیا۔ باایں ہمہ خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کے خیالات وعقائد کی تحقیق کی جائے۔
مشرکانہ وملحدانہ اصول وعقائد
اس کے دین کا پہلا اصول یہ تھا کہ شلغمانی ہی وہ الٰہ الہٰیت ہے جو حق کو ثابت کرتا ہے۔ وہی ہے جس کی جانب الفاظ اوّل وقدیم اور ظاہر باطن سے اشارہ کیا جاتا ہے۔ ذات باری تعالیٰ کے متعلق شلغمانی کا یہ اعتقاد تھا کہ وہ ہرچیز میں اس کے ظرف وتحمل کے بموجب حلول کرتا ہے اور جب کسی پیکر ناسوتی میں داخل ہوتا ہے تو اس سے ایسی قدرت اور ایسے معجزات ظاہر ہوتے ہیں جو اس کے خدا ہونے کی دلیل ہوتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ الٰہی یہ تھا کہ اس نے ہرچیز کے لئے ایک ضد اس بناء پر ظاہر کی کہ جس کی ضد ہے وہ ثابت ہو جائے۔ پس ضد ہی ہر حق کی دلیل ہے اور دلیل حق خود حق سے افضل وبرتر ہوتی ہے۔ ہرچیز کے ساتھ جو چیزیں موافق ومشابہ ہوتی ہیں بمقابلہ ان کے اس چیز کی ضد اس سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ اس کا مظہر یہ ہے کہ جب رب العالمین نے ابوالبشر آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی تو جس طرح وہ خود آدم علیہ السلام میں حلول کر کے نمایاں ہوا۔ اسی طرح آدم علیہ السلام کے ابلیس یعنی ان کی ضد میں حلول کر کے بھی خود ہی نمودار ہوا اور گوبظاہر ایک دوسرے کے خلاف نظر آتے تھے۔ مگر دراصل دونوں پیکروں میں خود ہی تھا۔
پھر جب آدم علیہ السلام صفحہ ہستی سے غائب ہوگئے تو لاہوت (خدائے برتر) متفرق ومنتشر ہوکر پانچ ناسوتیوں میں جداجدا ظاہر ہوا اور اسی طرح ابلیس بھی پانچ ابلیسوں میں سمٹ گیا۔ اب لاہوتیت ادریس علیہ السلام کے پیکر میں جمع ہوگئی۔ یعنی مکمل خدا نے ادریس (علیہ السلام) میں حلول کیا۔ اسی طرح وہ ضد بھی پانچوں ابلیسوں میں سے سمٹ کر ادریس علیہ السلام کی ضد یعنی ان کے مخالف ومعاصر ابلیس میں مجتمع ہوگئی۔ ادریس علیہ السلام اور ان کے معاصر ابلیس کے بعد