بھیجا۔ ان کے دل ٹیڑھے تھے۔ محمد(ﷺ) نے ان کو حکم دیا کہ رکوع وسجود کریں۔ نماز پڑھیں۔ علیؓ نے محمد(ﷺ) کو اصحاب کہف کی مدت خواب یعنی ساڑھے تین سو سال تک مہلت دے دی اور اس بات کی اجازت مرحمت فرمائی کہ اتنا زمانہ تک محمد (ﷺ) کی شریعت ہی پر عمل کیا جائے۔ لیکن اس مدت کے گزرتے ہی ان کی شریعت مسترد ہو جائے گی اور اس کی جگہ نئی شریعت عرصۂ وجود میں آئے گی۔
مگر ساڑھے تین سو سال کی مدت کے پورے ہونے میں ابھی اٹھائیس سال باقی تھے کہ دربار خلافت نے الوہیت کا وہ سارا کھیل ہی بگاڑ دیا جو شلغمانی کے پیکر ناسوت میں سے عجیب وغریب قسم کی ابلیسی صدائیں بلند کر رہی تھی۔ شلغمانی کے مسائل شریعت یہ تھے۔
غسل جنابت اورنماز روزہ بالکل چھوڑ دیا جائے۔ یہ تکلیف محمد(ﷺ) نے عربوں کو ان دنوں دی تھی۔ لیکن عہد حاضر میں اس کی قطعاً ضرورت نہیں۔ موجودہ دور میں تو یہ تکلیف لوگوں کے مناسب حال ہے کہ اغیار کو اپنی بیوی سے ہم بستر ہوتے دیکھیں اور غصہ نہ آئے۔ بندے پر اﷲ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت یہ ہے کہ اس کے لئے دولذتیں جمع کر دیں۔ پس ہر انسان اپنے ذوی الارحام اور محرمات ابدیہ تک کے ساتھ مقاربت کر سکتا ہے۔ بلکہ اہل حق (شلغمانی کے دام افتادوں) کو چاہئے کہ ہر شخص جو دوسرے سے افضل ہو اپنے سے کم درجہ والوں کی عورتوں سے حسبۃً ﷲ مقاربت کرے تاکہ ان میں اپنا نور پہنچائے اور جو کوئی اس سے انکار کرے گا وہ کسی آئندہ زندگی میں عورت کے پیکر میں پیدا کیا جائے گا۔ شلغمانی نے اس شرمناک موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا نام کتاب الحاستہ السادسہ رکھا تھا۔
غرض شلغمانی شہوت پرستی کے رواج دینے میں اپنے کسی پیش رو سے کم نہیں تھا۔ بلکہ غور سے دیکھا جائے تو اس آئین کے رائج کرنے میں اس نے مزدک کے بھی کان کاٹے تھے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس ناہنجار نے فعل خلاف وضع فطرت یعنی قوم لوط علیہ السلام کو بھی جائز کر رکھا تھا۔ اس سے معلوم ہوگا کہ یہ شخص محض زندیق ہی نہیں تھا بلکہ اوّل درجہ کا شہوت پرست اور بدمعاش بھی تھا جس کا نصب العین یہ تھا کہ دنیا شہوت پرستی، زناکاری اور اغلام کا گہوارہ بن جائے۔
گو حضرت علیؓ خود بھی ابن ابی طالب تھے۔ لیکن اس لحاظ سے کہ آل ابو طالب میں سے اکثر نے امامت کے دعوے کئے تھے۔ شلغمانی کے نزدیک تمام طالبیوں اور عباسیوں کا قتل کرنا موجب ثواب تھا۔ خلاصہ یہ کہ اس شخص نے دین اسلام اور خلافت آل عباس کے استیصال کے لئے بارود بچھانے میں اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔