جب شلغمانی کا فتنہ حد سے بڑھا اور لوگ جوق درجوق اس کے حلقہ ارادت میں داخل ہوکر اس کو رب العالمین ماننے لگے تو دربار خلافت کو اس کی طرف سے تردد لاحق ہوا۔ خاقانی وزیراعظم نے اس کے گرفتار کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر شلغمانی کو اس کی اطلاع ہوگئی اور وہ بغداد میں روپوش ہوکر نہایت خاموشی کے ساتھ موصل چلا گیا۔ حکومت نے دیکھا کہ یہ فتنہ اب دب دیا گیا ہے۔ اس کی گرفتاری کا کچھ اہتمام نہ کیا۔ لیکن ڈیڑھ دوسال کے بعد اس نے پھر بغداد میں آکر سر اٹھایا۔ خلیفہ الرضی باﷲ نے جو اسی سال مسند خلافت پر رونق افروز ہوا تھا اس کی گرفتاری کا مؤکد حکم جاری کردیا۔ اس وقت ابن مقلہ وزیراعظم تھا۔ اس نے بیدار مغزی اور حکمت عملی سے کام لے کر اس نئے پروردگار عالم کو گرفتار کر لیا اور قید خانے میں ڈال دیا۔
اس کے بعد اس کے گھر کی تلاشی لی گئی تو اس کے مومنین ومعتقدین کے بہت سے خطوط اور رقعات برآمد ہوئے۔ جن میں شلغمانی کو ایسے القاب سے یاد کیا تھا۔ جن کا اطلاق واستعمال بجز ذات رب العالمین کے بشر خاکی کی نسبت ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔ ابن مقلّہ نے علماء کو جمع کیا اور شلغمانی کے سامنے وہ خطوط پیش کئے۔ اس نے تسلیم کیا کہ یہ تمام خطوط میرے ہی نام پر بھیجے گئے تھے۔ لیکن تقیہ کر کے کہنے لگا کہ میں بالکل بے قصور ہوں۔ میرے عقیدے وہی ہیں جو دوسرے شیعوں کے ہیں۔ میں نے اپنی زبان سے یہ بات کبھی نہیں کہی کہ میں معبود اور رب العالمین ہوں اور ان لوگوں نے جو میری نسبت ایسے تعریفی الفاظ استعمال کئے تو یہ ان کی غلطی ہے۔ دوسروں کی غلطی کا الزام مجھ کو نہیں دیاجاسکتا۔ انہی خطوط کی بناء پر اس کے دو معتقد بھی گرفتار کئے گئے جو بغداد کے معززین میں سے تھے۔ ایک ابن ابی عون اور دوسرا ابن عبدوس۔
شلغمانی دربار خلافت میں
اب یہ دونوں حاشیہ بردار اور خود شلغمانی خلیفہ راضی باﷲ کے دربار میں پیش کئے گئے۔ خلیفہ نے ان دونوں مریدوں کو حکم دیا کہ اگر تم شلغمانی سے اپنی برأۃ ظاہر کرتے ہو تو دونوں زور زور سے اس کے منہ پر تھپڑ مارو۔ پہلے تو اس کے حکم کی تعمیل سے گریزاں رہے۔ لیکن جب مجبور کئے گئے تو جبراً وقہراً آمادہ ہوئے۔ ابن عبدوس نے ہاتھ بڑھا کر تھپڑ ماردیا۔ مگر ابن ابی عون نے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا اس کا ہاتھ کانپ گیا اور ساتھ ہی دلی عقیدت کا جو جوش ہوا تو بڑھ کر شلغمانی کے سر اور داڑھی کا بوسہ دیا اور بے اختیار اس کی زبان سے یہ کلمہ نکلا۔ ’’الٰہی وسیدی ورزاقی‘‘ (اے میرے معبود! میرے سردار اور میرے رازق) اب کیا تھا خلیفہ کو ایک حجت وبرہان ہاتھ آگئی۔ بولا تم تو کہتے تھے کہ مجھے دعوائے الوہیت نہیں تو اس شخص نے تجھے ایسے الفاظ