کی دعوت ٹھکرا دی گئی ہے۔ اس لئے خدائے شدید العقاب کی طرف سے نزول عذاب کا خوفناک منظر دکھایا گیا ہے۔ یہ خیال کر کے ہزارہا حماقت شعار تہی دستان قسمت نے اپنی متاع ایمان اس کے سپرد کر دی۔ ان سرگشتگان کوئے ضلالت میں سیکڑوں لکھے پڑھے لوگ بھی تھے۔ جنہیں علمی جہلاء کہنا زیبا ہے۔ علمائے امت نے بہتیرا سمجھایا کہ اس شعبدہ گر کے مکروں میں آکر سعادت ایمانی سے محروم نہ ہوں۔ مگر کون سنتا تھا۔ ان پر اس عیار کا پوری طرح جادو چل چکا تھا۔ بجز قلیل التعداد افراد کے کوئی راہ راست پر نہ آیا۔
علی بن فضل کی مجلس میں ایک شخص پکارکر کہا کرتا تھا ’’اشہد ان علی ابن الفضل رسول اﷲ‘‘ لیکن معلوم ہوتا کہ دعوائے رسالت کے ساتھ ہی وہ خدائی کا بھی مدعی تھا اور ممکن ہے کہ دونوں دعوؤں میں تقدیم تاخیر ہو۔ ابن فضل جب کسی پیرو کے نام کوئی تحریر بھیجتا تو عنوان تحریر یہ ہوتا من باسط الارض وواحیہا ومزلزل الجبال ومرسلہا علی بن الفضل الیٰ عبدہ فلاں ابن فلاں (یہ تحریر زمین کے پھیلانے اور ہانکنے والے اور پہاڑوں کے ہلانے اور ٹھہرانے والے علی بن فضل کی جانب سے اس کے فلاں بن فلاں بندے کے نام ہے)
اس نے بھی اپنے مذہب میں تمام محرمات کو حلال کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ بادہ نوشی اور بیٹیوں تک سے نکاح بھی جائز وروا تھا۔ انجام کار بعض اکابر اسلام غیرت ملی اورناموس اسلامی سے مجبور ہوکر اس کے درپئے ہلاکت ہوئے اور ۳۰۳ھ میں اس کو جام زہر پلوا کر قعر عدم میں پہنچا دیا۔ علی بن فضل کافتنہ انیس سال تک ممتد رہا۔
(کتاب المختار وکشف الاسرار للجویریؒ ومذہب اسلام بحوالہ نزہت الجلیسں ومنیۃ الانیس)
لیکن تعجب ہے کہ صنعاء کے حکام نے انیس سال کا طویل زمانہ اس کی مزاج پرسی کیوں نہ کی اور لوگوں کے متاع ایمان پر ڈاکے ڈالنے کے لئے اسے اتنا طویل عرصہ کیوں کھلا چھوڑ دیا۔ غلام احمد قادیانی تو نصاریٰ کی عملداری میں تھا۔ اس لئے اس کو حکام کی طرف سے… کسی عاجل خمیازہ کے بھگتنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ لیکن افسوس ہے کہ کوئی شخص اسلامی قلمرو میں رہ کر زیادہ مدت تک ملت حنیفی میں رخنہ اندازیاں کرتا رہے اور خدا کی عاجز مخلوق پر رحم کر کے اس کی حفاظت کا کوئی انتظام نہ کیا جائے۔ جونہی اس نے دعوائے نبوت کی رٹ لگائی تھی حکام کا دینی، اخلاقی اور سیاسی فرض تھا کہ اس کی رگ جان کاٹ کر اسے موت کی نیند سلادیتے یا کم ازکم قید وسجن کی نذر کرتے۔