آکر کوئی بڑی رقم نذر کر کے اس سے مصالحت کر لی۔ یہاں سے اس نے حمص کا رخ کیا اور اس کو مسخر کر کے منبروں پر اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا۔ پھر حماۃ اور معرۃ النعمان پر فوج کشی کی۔ ان مقامات پر قتل ونہب کا بازار گرم کیا اور اپنی شقاوت پسندی سے عورتوں اور بچوں تک سے درگذر نہ کیا۔ یہاں سے عنان توجہ بعلبک کی طرف موڑی اور وہاں پہنچ کر قتل عام کا حکم دے دیا۔ بعلبک میں یہ قیامت برابر اس وقت تک برپا رہی جب تک معدودۂ چند آدمی کے سوا شہر کی تمام آبادی بے نام ونشان نہ ہوگئی۔
بعلبک کے بعد سلمیہ کا رخ کیا۔، اہل شہر نے شہر پناہ کے دروازے بند کر لئے۔ حسین نے ان کو دم دلاسہ دے کر اور امان کا وعدہ کر کے اطاعت پر آمادہ کیا۔ وہاں کے باشندوں نے شہر کے دروازے کھول دئیے۔ اس سیاہ دل نے شہر میں داخل ہوتے ہی عہد امان کو بالائے طاق رکھ دیا اور بعلبک کی طرح یہاں بھی قتل عام کا بازار گرم کر دیا۔ یہاں تک کہ مکتبوں کے صغیر سن بچے اور چوپائے بھی اس کی تیغ جفا سے نہ بچ سکے۔ اس کے بعد سلمیہ کے دیہات میں جا نکلا اور بادیہ نشینوں کو قتل کرتا اور قیدی بناتا پھرا۔
اور ان ایام کے حکمراں طبقہ کی یہ غفلت کس قدر ماتم انگیز تھی کہ وہ اس قسم کے دجالوں اور فتنہ انگیزوں سے کوئی تعرض نہ کرتے تھے۔ جب تک وہ خم ٹھونک کر حکومت کے مقابلے پر نہ آجائیں اور ملک کے کسی بڑے حصے پر عمل ودخل کرتے ہوئے بے گناہ رعایا کو تباہ وبرباد نہ کر لیں۔ حسین قرمطی ہر طرف دندناتا پھرا اور دربار خلافت کو اس وقت تک ہوش نہ آیا جب تک اس نے ممالک محروسہ کے ایک حصے کی اینٹ سے اینٹ نہ بجادی۔
اس وقت ممالک اسلامیہ پر خلیفہ مکتفی کی فرمانروائی تھی۔ اس نے ۲۹۱ھ میں بہ نفس نفیس لشکر آراستہ کر کے اس کی گوشمالی پر کمر باندھی۔ حسین اس وقت حماۃ کے باہر ایک میدان میں پڑا تھا۔ خلیفہ نے اپنی فوج کے ہر اول کو بڑھنے کا حکم دیا۔ حماۃ کے باہر دونوں فوجیں صف آرا ہوئیں۔ سخت جدال وقتال کے بعد حسین کو ہزیمت ہوئی۔ ہزاروں قرمطی مارے گئے اور بقیتہ السیف حلب کی طرف بھاگے۔ خلیفہ نے ابن طولون کے حریت یافتہ غلام کو اس کے تعاقب میں روانہ کیا۔ جو منزل بہ منزل اسکو شکست دیتا جاتا تھا اور منہزمین کمال بے سروسامانی کے ساتھ گیدڑوں کی طرح بھاگے چلے جارہے تھے۔ اس اثناء میں خلیفہ نے ایک اور فوج حسین کے تعاقب اور سرکوبی کے لئے یحییٰ بن سلیمان کی قیادت میں روانہ کی۔ یحییٰ نے کاٹتے چھانٹتے قرمطیوں کا بری طرح صفایا کیا۔