نے یہ بھی سنا کہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ محمدی کلمہ ہے اور احمدی کلمہ ’’لا الہ الا اﷲ احمد جری اﷲ‘‘ بہت سے احباب میں نے دیکھے جو حضرت مرزا قادیانی مسیح موعود کے حق میں صاحب شریعت نبی کہنے سے بھی نہیں چھپتے تھے۔ بعضوں نے تو حضرت مسیح موعود کے الہام ’’وتخذوا من مقام ابرہیم مصلیٰ‘‘ سے اس استدلال کو قبول کرلیا کہ اب احمدیوں کا قبلہ نماز قادیان ہونا چاہئے۔ اس حلیہ میں مجھے ایک بھی ایسا فرد قادیان میں نہیں ملا جو حضرت مسیح موعود کو اسی طرح کا رسول اﷲ اور نبی اﷲ نہ مانتا ہو جس طرح کہ خدا کے فرستادے حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت محمد مصطفیﷺ خاتم الانبیاء تھے۔‘‘ (المہدی نمبر ۳۴ نمبر۴۷، مؤلفہ حکیم محمد حسین قادیانی لاہوری، ماخذ پروفیسر محمد الیاس برنی کا قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ فصل نمبر ۱۶نمبر۱۰۰ ص۷۹۸)
معلوم ہونا چاہئے کہ نبوت کا مسئلہ نہایت ہی نازک ہے اگرمدعی نبوت کا دعویٰ سچا ہے تو اس کا نہ ماننے والا کافر اور اگر اس کا دعویٰ جھوٹا ہے تو اس کا ماننے والا کافر ہے۔ ایسی صورت میں آنحضرت محمد رسول اﷲﷺ کو جو کہ اپنی امت پر نہایت شفیق اور بے حد مہربان ہیں اور جن کی بابت وحی الٰہی نے کہا ہوا ہے: ’’لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رؤوف الرحیم‘‘ اور بقول قادیانی صاحبان کے جن کی نبی تراش مہر نے مرزا قادیانی کی نبوت کی تصدیق کردی ہے۔
اس قدر اہم مسئلہ کو وضاحت کے ساتھ بیان نہ کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ بجز اس کے کہ آنحضرت محمدﷺ نے مرزا قادیانی کے متعلق نہ تو کبھی کچھ فرمایا ہے اور نہ ہی ان کی مزعومہ نبوت کی تصدیق کی ہے اور نواس بن سمعانؓ والی حدیث میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے حقیقتاً حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہی مراد ہیں نہ کہ بطور استعارہ مرزا قادیانی۔ دیگر یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے بھی آنحضرت محمد رسول اﷲﷺ سے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں کیا کہ ہم نے مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کو نبی رسول مرسل اور جری اﷲ فی حلل الانبیاء بنایا ہے جن کا ظہور تیرھویں صدی ہجری میں آپﷺ کے بعد ہوگا۔ لہٰذا ان کا ذکر بھی اس حشر کے میدان کے ذکر میں شامل کردیجئے۔ تاکہ مرزا قادیانی کی نبوت کی تصدیق ہوجائے اور امت محمدیہ کا بیشتر حصہ کفر کی حالت میں مرنے سے بچ جائے۔