۱… ’’اذا اوحی اﷲ تعالیٰ الیٰ عیسیٰ علیہ السلام‘‘ جس کی بناء پر مرزا قادیانی نے خود پر وحی الٰہی نازل ہونے کا جواز قائم کیا۔
۲… حدیث میں الفاظ نبی اﷲ عیسیٰ علیہ السلام چار دفعہ استعمال ہوئے ہیں۔ جس کی بناء پر مرزا قادیانی کو نبی ماننے کا جواز قائم کیا گیا۔
۳… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے لئے صحابہ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کی بناء پر مرزا قادیانی کے ساتھیوں کو صحابہ کہنے کا جواز قائم کیا گیا۔ کتنے ظلم کی بات ہے کہ کثیر التعداد احادیث کو چھوڑ کر خبر احاد کو دلیل بنالیا گیا ہے۔ پھر اگر یہ تینوں زائد باتیں آنحضرت محمدﷺ نے بیان فرمائی ہوتیں تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ اور دیگر راویاں نے انہیں سنیں بدیں وجہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت نواس ابن سمعانؓ نے از خود ازراہ احترام یہ الفاظ زائد کردئیے ہیں۔ کیونکہ ان کا مقصود حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تھے نہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی۔
حدیث مندرجہ چیلنج میں مرزا قادیانی کا ذکر اس لئے بھی ضروری اور نہایت ہی اہم تھا کہ قادیانی عقیدے کے مطابق مرزا قادیانی پر ایمان نہ لانا خواہ ان کو دیکھا بھی نہ ہو۔ مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے جس سے معلوم ہواکہ کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ جو کہ چودہ سو برس سے پڑھنے والے کے اسلام میں داخل ہونے کی سند مانی جاتی ہے۔ اب وہ کلمہ بھی اس کو اسلام میں ٹھہرنے نہیں دیتا ہے۔ باالفاظ دیگر محمد رسول اﷲﷺ کی تصدیق ایمان کے لئے اب ناقص ہوگئی ہے۔ (نعوذ باﷲ)
اور قادیانی عقیدے کے مطابق کروڑوں مسلمان جو مرزا قادیانی پرا یمان نہیں رکھتے وہ سب کے سب دائرہ اسلام (اللہ کے دین) سے خارج ہوگئے ہیں۔ کلمہ کے ذکر کے سلسلے میں یہاں پر منشی ظہیر الدین صاحب کی ایک چشم دید شہادت جو انہوں نے سالانہ جلسہ قادیان کے حالات کی بابت لکھ کر دفتر پیغام صلح میں بھیجی ہے۔ اس میں سے کلمہ کے متعلق قارئین کی آگاہی کے لئے لکھی جاتی ہے۔ ’’چوتھی بات جو میں نے جلسہ میں دیکھی تھی وہ اختلاف عقائد تھا اور میں حیران رہ گیا۔ بعض احباب نے ’’لاالہ اﷲ احمد جری اﷲ‘‘ کو درست اور صحیح قرار دئیے ہوئے اس کو پڑھنے اور بطور احمدی عقائد کے خلاصہ کے تسلیم کرنے کا اقرار کیا۔ بلکہ بعض سے میں