واحترام سے استقبال کیا جاتا تھا اور خلیفہ کا خاص قاصد خلعت فاخرہ اور ایک راس عربی گھوڑا لئے ہوئے افشین سے ملتا تھا۔ جب افشین سامرہ کے قریب پہنچا تو خلیفہ معتصم کا بیٹا واثق باﷲ اراکین سلطنت کولئے ہوئے بغرض استقبال سامرہ سے باہر آیا اور کمال توقیر سے قصر مطیرہ میں ٹھہرایا۔ افشین نے اسی قصر میں بابک کو بھی اپنے زیرحراست رکھا۔ خلیفہ کے حکم سے افشین کے سر پر تاج رکھا گیا۔ اسے بیش قیمت خلعت پہنایا گیا۔ اس کو بیس لاکھ درہم انعام دئیے اور دس لاکھ درہم اس کی فوج میں تقسیم کئے گئے۔
قتل کے وقت بابک کا استقلال
انہی ایام میں جب کہ بابک قصر مطیرہ میں مقید تھا۔ خلیفہ معتصم محل میں آیا اور بابک کو سرسے پیر تک بنظر غور دیکھتا رہا اور چلا گیا۔ دوسرے دن خلیفہ دربار عام میں رونق افروز ہوا۔ لوگوں کو حسب مراتب دربار عام سے قصر مطیرہ تک بٹھایا اور حکم دیا کہ بابک کو ہاتھی پر سوار کر کے دربار میں حاضر کریں۔ کسی شخص نے بابک سے کہا تم اپنی زندگی میں ایسی ایسی بدکرداریوں کے مرتکب رہے جو تم سے پہلے شاید کسی انسان سے سرزد نہ ہوئی ہوں گی۔ اب ان کا خمیازہ بھگتنے کا وقت آگیا ہے۔ لیکن اب تجھے صبر سے کام لینا چاہئے۔ بابک نے کہا تو عنقریب میرے ثبات واستقلال کو دیکھے گا۔
خلیفہ نے اس کا ایک ہاتھ قطع کرنے کا حکم دیا۔ جس کی فوراً تعمیل ہوئی۔ بابک نے جھٹ کٹے ہوئے ہاتھ کے کون سے اپنا چہرہ رنگ لیا۔ کسی نے پوچھا چہرہ سرخ کرنے کی کیا وجہ ہے؟ بولا ایسا نہ ہو کہ خون نکلنے سے چہرہ پیلا پڑ جائے اور یہ لوگ سمجھنے لگیں کہ بابک موت سے ڈر گیا۔ اس کے بعد اس کے اعضا قطع کئے گئے۔ اس اثناء میں اس کی طرف سے اضطراب وبے چینی کی کوئی ادنیٰ خدمت بھی ظاہر نہ ہوئی۔
محاربات بابک کے مالی وجانی نقصانات
افشین آخری مہم میں بزمانہ حصار بابک غلہ اور مصارف سفر وقیام کے علاوہ جس روز میدان جنگ میں جاتا تھا دس ہزار درہم یومیہ صرف میں لاتا تھا اور جس دن اپنے مورچے میں رہتا تھا پانچ ہزار خرچ کرتا تھا۔ بابک کا فتنہ بیس سال تک ممتد رہا۔ ان معرکوں میں دو لاکھ پچپن ہزار پانچ سو اور دوسری روایت کے بموجب ایک لاکھ پچپن ہزار مسلمان جرعہ شہادت سے سیراب ہوئے۔ سات ہزار چھ سو مسلم خواتین اور بچے بابکیوں کے پنجۂ ظلم سے چھڑائے گئے۔ ان سب قیدیوں کو بغداد لاکر ایک وسیع احاطہ میں ٹھہرایا گیا۔ ان میں سے جس کسی کا کوئی والی وارث آتا تو