واپس ہوئے کہ ہم تو قلعہ بذ کو بات کی بات میں فتح کر لیتے مگر امیر عسکرناحق التواء ڈال کر ہم لوگوں کو ثواب جہاد سے محروم کرتا ہے۔ اگر ہم کو اب بھی حملہ کا حکم دے تو ہم دشمن کو اپنی تلوار کے جوہر دکھاویں۔ جاسوسوں نے یہ بات افشین کو جاسنائی اس نے مجاہدوں کو طلب کر کے تسلی دی اور علی الصباح جنگ کرنے کا حکم دیا۔ جس وقت رضاکاروں نے دھاوا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا خود بھی اسی وقت حملہ کرنے کا وعدہ کیا۔
قائداعظم افشین نے ان لوگوں کو مال واسباب، پانی، خوراک اور آلات حرب خاطر خواہ دے کر خوب قوی پشت کیا۔ زخمیوں کو میدان جنگ سے اٹھالانے کے لئے خچروں پر محملیں رکھوادیں اور جعفر کو اسی مورچے کی طرف بڑھنے کا حکم دیا جہاں تک کل پیش قدمی کی تھی۔
قلعہ کی فصیلیں توڑنے کے لئے سفر مینا کی روانگی
دوسرے دن افشین نے تیر اندازوں، نفاطوں اور نامی گرامی جنگ آزماؤں کو منتخب کر کے ایک لشکر مرتب کیا اور رضاکار مجاہدوں کو اپنے ساتھ ہونے میدان جنگ میں آیا۔ بابکیوں نے قلعہ سے تیرباری شروع کی۔ جعفر کی فوج اپنے کو بابک کے حملوں سے بچاتی ہوئی قلعہ بذ کی فصیلوں تک پہنچ گئی۔ اب جعفر کمال مردانگی واستقلال سے دروازۂ بذ پر پہنچ کر لڑنے لگا۔ یہاں تک کہ دوپہر ڈھل گئی۔ افشین نے حسب ضرورت ان لوگوں کے لئے کھانا اور پانی روانہ کیا اور سفر مینا کو بھی قلعۂ بذ کی فصیلوں کے توڑنے کے لئے کدالوں اور پھاوڑوں کے ساتھ بھیجا۔ یہ دیکھ کر بابک قلعہ کا دروازہ کھول کر نکل آیا اور اپنے پرزور حملہ سے رضاکاروں کو قلعہ کی فصیل سے پیچھے ہٹا دیا۔ اس کے بعد حالت یہ ہوگئی کہ کبھی تو بابک کالشکر رضاکاروں کو قلعہ کی فصیل سے پسپا کر دیتا تھا اور کبھی رضاکار بابکیوں کو مارمار کر قلعہ میں بھگا دیتے۔
قلعہ بذ پر لشکر اسلام کا قبضہ
دوسرے دن پھر لڑائی شروع ہوئی۔ بابک نے عنوان جنگ بگڑا ہوا دیکھ کر افشین کے پاس پیغام بھیجا کہ مجھے جنگ سے صرف اتنی مہلت دو کہ میں اپنے اہل وعیال کو کسی دوسرے مقام پر منتقل کر سکوں۔ بعدازاں قلعہ بذ کی کنجیاں تمہارے حوالے کر دوں گا۔ افشین نے ہنوز نفی یا اثبات میں کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ اتنے میں خبر پہنچی کہ عساکر اسلام نے قلعہ پر قبضہ کر لیا ہے اور خدا کے فضل سے اس کے بلند میناروں پر خلیفۃ المسلمین کا جھنڈا نصب ہوگیا ہے۔ افشین سجدہ شکر بجالاکر قلعہ میں داخل ہوا۔ بہت سا مال غنیمت اور قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔