ہمیشہ معدودۂ چند آدمیوں کو ساتھ لاتا اور باقی فوج کمین گاہ میں رہتی۔ افشین نے ہر چند تجسس کیا مگر یہ راز نہ کھل سکا۔
افشین عموماً جعفر خیاط، احمد بن خلیل اور ابوسعید کو تین تین دستہ فوج کے ساتھ یکے بعد دیگرے میدان کارزار میں بھیجتا اور خود ایک بلند مقام پر بیٹھ کر لڑائی کا منظر دیکھتا۔ اس مقام سے بابک کا قلعہ اور محل سرائے بھی دکھائی دیتا تھا۔ افشین نماز ظہر ادا کر کے مراجعت کرتا۔ اس کے واپس ہوتے ہی اس کی فوجیں بھی یکے بعد دیگرے میدان جنگ سے ترتیب وار واپس آجاتیں۔ بابک اس طولانی جنگ سے گھبرا گیا۔
رضاکار مجاہدین کی شجاعت
ایک روز حسب معمول لشکر اسلام واپس ہوا۔ اتفاق سے جعفر خیاط پیچھے رہ گیا۔ بابک کا لشکر میدان خالی سمجھ کر قلعہ بذ سے نکل پڑا۔ جعفر خیاط نے بڑھ کر حملہ کر دیا اور بآواز بلند اپنے لشکریوں کو پکارا۔ جعفر کی فوج غنیم پر ٹوٹ پڑی اور لڑائی دوبارہ چھڑ گئی۔ جعفر کی فوج میں مطوعہ یعنی رضاکاروں کا بھی ایک گروہ تھا۔ جو جہاد فی سبیل اﷲ کی غرض سے لشکر اسلام میں شامل ہوگئے تھے۔ ان رضاکاروں نے افشین کی مرضی پائے بغیر ازخود اس شدت کا حملہ کیا کہ دیکھنے والے یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ لوگ کمندیں ڈال کر قلعہ پر چڑھ جائیں گے۔ یہ دیکھ کر جعفر نے افشین سے پانسو تیر اندازوں کی امداد طلب کی۔ افشین نے کہلا بھیجا کہ تم امدادی فوج کا انتظار نہ کرو۔ جہاں تک ممکن ہو آہستہ آہستہ حکمت عملی سے واپس چلے آؤ۔ کیونکہ جنگ کا عنوان خطرناک ہورہا ہے۔ اس عرصہ میں رضاکار مجاہد حملے کرتے ہوئے قلعہ بذ تک پہنچ گئے۔ بابک کے وہ سپاہی جو کمین گاہ میں تھے یہ سمجھ کر کہ دشمن قلعہ تک پہنچ گیا ہے۔ کمین گاہ سے نکل آئے۔ افشین پر اس قلعہ کا سارا راز اور کمین گاہ کا حال کھل گیا۔ جعفر آہستہ آہستہ لڑتے لڑتے اپنے مورچے کی طرف واپس آگیا۔
قائداعظم سے رضاکارمجاہد کی شکایت
جعفر نماز مغرب ادا کر کے افشین کے پاس آیا۔ افشین نے عدول حکمی اورخلاف مرضی جنگ میں اقدام کرنے سے اظہار ناراضی کیا۔ جعفر اپنے قائداعظم کے امداد نہ بھیجنے پر اظہار ملال کرنے لگا۔ لیکن دونوں نے معقول وجوہ پیش کئے اور صفائی ہوگئی۔ اب رضاکاروں نے حاضر خدمت ہوکر قلت رسد ومصارف کی شکایت کی۔ افشین نے جواب دیا کہ جو شخص قلت مصارف اور گرسنگی کی تکلیف پر صبر کر سکے وہ ہمارے ساتھ رہے۔ ورنہ اپنا راستہ لے۔ امیرالمؤمنین کے لشکر میں بفضلہ تعالیٰ جنگ آوروں کی کمی نہیں۔ رضاکار مجاہدین یہ کہتے ہوئے