کیا۔ دوسری طرف بغا کی فوج نے غلہ ورسد کے تھڑجانے کی وجہ سے شروغل مچانا شروع کیا۔ بغا نے مجبور ہوکر قلعہ بذ کے عزم سے اور نیز بغرض دریافت حال افشین وہاں سے کوچ کیا۔ دور نکل آنے پر افشین کا حال معلوم ہوا۔
اب بغابابک کے خوف سے پھر اسی پہاڑی کی طرف لوٹا اور کثرت فوج اور تنگی راہ کی وجہ سے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ بابک کے متجسس سپاہیوں نے تعاقب کیا۔ بغا نے ان کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا اور بڑی سرعت سے اس تنگ اور دشوار گزار راستہ کو طے کیا۔ اس اثناء میں رات کی سیاہ چادر عالم کائنات پر محیط ہوگئی۔ بغا نے مال واسباب کی حفاظت کے خیال سے دامن کوہ میں ڈیرے ڈال دئیے اور چاروں طرف سپاہیوں کو پہرے پر متعین کیا۔ تھکے ماندے تو تھے ہی سب کے سب سوگئے۔ بابک نے چھاپہ مارا اور تمام مال واسباب لوٹ لیا۔ بغا بحالت تباہ خندق اوّل میں چلا آیا جو اسفل کوہ میں واقع تھی۔
بغداد سے مزید افواج کی روانگی
جب خلیفہ معتصم کو عساکر خلافت کی متواتر ہزیمتوں اور ناکامیوں کا علم ہوا تو اس نے جعفر خیاط کی سرکردگی میں ایک فوج گراں افشین کی کمک پر روانہ کی اور تیس لاکھ درم مصارف جنگ کے لئے بھیجے۔ اس فوج اور مالی امداد سے افشین قوی دل ہوگیا اور اس کی قوت بہت بڑھ گئی۔ چنانچہ فصل ربیع کے اوائل میں بابک سے معرکہ آراء ہونے کی غرض سے آہستہ آہستہ قلعہ بذ کی طرف بڑھنے لگا۔ رات کے وقت سپاہیوں کو پہرہ پر متعین کرتا اور رات ہی کے وقت گشت کرنے کے لئے فوج بھیجتا۔ جس کے ساتھ خود بھی جاتا۔ رفتہ رفتہ قلعہ بذ کے بالمقابل ایسے مقام پر پہنچا جہاں تین پہاڑیاں ایک دوسری سے متصل واقع تھیں۔ ان تینوں پہاڑیوں کے بیچ میں ایک وسیع میدان تھا۔ افشین نے یہیں مقام کیا اور ایک راستہ کو رکھ کرباقی تمام راہوں کو پتھروں سے چن دیا۔ انہی پہاڑیوں کے قریب بابک کا لشکر بھی پڑا تھا۔
افشین کا طریق جنگ
افشین روزانہ نور کے تڑکے نماز صبح ادا کر کے نقارہ بجواتا۔ لشکری اس نقارہ کی آواز سن کر تیارہو جاتے۔ پھر مقابلہ شروع ہوتا۔ جب تک مصروف قتال رہتا نقارہ بجتا رہتا اور جنگ کو روکنا منظور ہوتا نقارہ بند کر دیا جاتا اور جب پیش قدمی کا ارادہ ہوتا تو درۂ کوہ پر ایک لشکر متعین کیا جاتا جو اس قدرتی قلعہ کی محافظت کرتا۔ ادھر بابک نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ جب افشین حملہ آور ہوتا تو چند سپاہیوں کو اسی گھاٹی کے نیچے گمین گاہ میں بٹھا دیتا اور اس کی عادت تھی کہ