آذربائیجان کے درمیان واقع تھے۔ ویران ومسمار کر دیا تھا۔ جب خلیفہ معتصم ۲۱۸ھ میں اپنے بھائی مامون کا جانشین ہوا تو اس نے ابوسعید محمد بن یوسف کو بابک کی مہم پر مامور کیا۔ چنانچہ ابوسعید نے ان قلعہ جات کو جنہیں بابک نے مسمار کر دیا تھا ازسرنو تعمیر کرایا اور انہیں فوج، آلات حرب اور غلہ کی بڑی مقدار سے مضبوط ومستحکم کیا۔ اس اثناء میں بابک کے کسی سریہ نے ان بلاد پر شبخون مارا۔ ابوسعید نے اس کا تعاقب کیا اور نہایت اولوالعزمی سے لوٹ کر تمام مال واپس لیا۔بیشمار بابکیوں کو قتل اور اکثر کو گرفتار کیا اور مقتولوں کے سر اور کثیر التعداد قیدی ایک عرضداشت کے ساتھ خلیفہ معتصم کے پاس بھیج دئیے۔ یہ پہلی ہزیمت تھی جو بابکیوں کو عساکر خلافت سے نصیب ہوئی۔
دوسری ہزیمت محمد بن بعیث کے ذریعہ سے ہوئی جو بابک کا معین ومددگار تھا۔ محمد بن بعیث آذربائیجان کے ایک قلعہ میں فروکش تھا اور بابک کے سرایا اور افواج کو رسد پہنچایا کرتا تھا۔ اتفاق سے بابک کی پہلی ہزیمت کے بعد بابک کا ایک سپہ سالار عصمت نامی اس قلعہ کی طرف سے ہوکر گذرا۔ ابن بعیث نے اس کی دعوت کی اور اس کو عزت واحترام کے ساتھ ٹھہرایا۔ لیکن رات کے وقت حالت غفلت میں اس کوگرفتار کرکے خلیفہ معتصم کے پاس بھیج دیا اور عصمت کے تمام رفقاء کو قتل کر ڈالا۔ خلیفہ نے عصمت سے بابک کے بلاد اور قلعوں کے اسرار وخفایا دریافت کئے۔ عصمت نے تمام اسرار اور جنگی مواقع ظاہر کر دئیے۔ تاہم خلیفہ نے اسے رہا نہ کیا اور ایک فوجی سردار افشین حیدر کو جبال کی عملداری مرحمت فرما کر بابک کے مقابلہ میں بھیجا۔ افشین نے میدان کارزار میں پہنچ کر رسد کا انتظام کیا اور راستوں کو خطرات سے پاک کرنے کے خیال سے تھوڑی تھوڑی مسافت پر چوکیاں بٹھائیں اور کار آزمودہ اور تجربہ کار فوجی افسروں کوگشت اور دیکھ بھال پر متعین کیا۔
بابک کی پیہم کامیابیاں
اس کے بعد خلیفہ نے بغا کبیر کو فوج کثیر اور مال واسباب کے ساتھ افشین کی کمک پر روانہ کیا۔ یہ سن کر بابک بغاکبیر پر شبخون مارنے کے قصد سے چلا۔ جاسوسوں نے افشین تک یہ خبر پہنچا دی۔ افشین نے بغا کو لکھ بھیجا کہ تم قافلہ کے ساتھ نہر تک آؤ اور قافلہ کی روانگی کے بعد پھر اردبیل کو مراجعت کرو۔ بغانے اس ہدایت پرعمل کیا۔ لیکن پھر بابک یہ خبر پاکر کہ بغاکاقافلہ قلعہ نہر کی طرف روانہ ہوگیا ہے۔ اپنے چیدہ چیدہ سپاہیوں کے ہمراہ نکل کھڑا ہوا۔ جس دن بغا سے ملنے کا وعدہ تھا افشین اس روز چپکے سے نکل کر اردبیل کو چلاگیا اور بغا کو بحفاظت تمام ابوسعید کے مورچے پر لے آیا۔ اس اثناء میں بابک قافلہ تک پہنچ گیا۔ والئی قلعہ نہر بھی قافلہ کے ہمراہ تھا۔ بغا