مجموعہ اور سخت نفرت انگیز تھی۔ تاہم جاویدان کی قوم کے علاوہ دیلم اور اہل ہمدان واصفہان نے بھی اپنی قسمت اس سے وابستہ کر دی۔
خلافت اسلامیہ کے خلاف علم بغاوت وخودسری
جب بابک کے پیروؤں کی تعداد تین لاکھ تک پہنچ گئی تو اس نے ۲۰۱ھ میں خلافت اسلامیہ کے خلاف علم بغاوت وخودسری بلند کر دیا۔ ان ایام میں خلیفہ مامون عباسی بغداد کے تخت خلافت پر متمکن تھا۔ تین سال تک تو مامون کو بعض داخلی الجھنوں نے بابک کی طرف متوجہ ہونے کا موقعہ نہ دیا۔ اس کے بعد ۲۰۴ھ میں خلیفہ مامون نے عیسیٰ بن محمد عامل آرمینیا وآذربائیجان کو حکم دیا کہ بابک کے قلع قمع کا انتظام کرے۔ لیکن وہ بعض مجبوریوں کی بنا پر اس مہم کو سرانجام دینے سے قاصر رہا۔ ۲۰۹ھ میں خلیفہ نے علی بن صدقہ معروف بہ زریق کو آرمینیا اور آذربائیجان کی حکومت سپرد کی اور ساتھ ہی جنگ بابک کی تاکید فرمائی۔ زریق نے ایک تجربہ کار سپہ سالار احمد بن جنید کو بابکی جمعیت کے توڑنے اور بابک کو اسیر کر لانے پر متعین کیا۔ لیکن ابن جنید بابک کو قید کرنے کے بجائے خود ہی شکست کھا کر قید ہوگیا۔
بابک کی ایک اور کامیابی
۲۱۲ھ میں مامون نے محمد بن حمید طوسی کو موصل کی حکومت پر فائز کر کے بابک پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا۔ محمد طوسی نے بابک پر چڑھائی کی اور اس کو منہزم کر کے دامن کوہ تک جا پہنچا۔ بابک نے دامن کوہ میں مقابلہ کیا اور پھر پہاڑ پر چڑھ گیا۔ طوسی نے جوش کامیابی میں اس کا تعاقب کیا۔ جب کوئی تین کوس تک چڑھ گیا تو بابکیوں نے کمین گاہ سے نکل کر دفعتہ طوسی پر حملہ کیا اور بابک بھی لوٹ کر معاً طوسی پر ٹوٹ پڑا۔ طوسی کا لشکر گھبرا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ بابکیوں کی ایک جمعیت نے محمد طوسی کو چاروں طرف گھیر لیا۔ محمد نے نہایت ثابت قدمی سے مقابلہ کیا۔ لیکن زخمی ہوکر گرا اور تڑپ کر دم توڑ دیا۔ جب یہ خبر بارگاہ خلافت میں پہنچی تو خلیفہ کو سخت صدمہ ہوا۔ خلیفہ بابک کی سرکشی اور اس کے فتوحات سے آگ بگولاہورہا تھا اور انتقام کے لئے ہر وقت دانت پیستا تھا۔ لیکن اتفاقات ایسے پیش آئے کہ اس کے بعد کوئی اور مہم بابک کی سرکوبی کے لئے نہ بھیج سکا اور ملک الموت نے پیام اجل آسنایا۔
بابک کی پہلی دو ہزیمتیں
بابک نے شہر بذ کو اپنا ملجاؤ مامن بنا رکھا تھا۔ اس نے اکثر شاہی قلعوں کو جوارد بیل اور