میں جاویدان مر گیا اور اس سے پیشتر کہ کسی کو اس کے مرنے کی اطلاع ہو۔ اس کی بیوی رات کے وقت بابک سے کہنے لگی کہ جاویدان مر گیا ہے اور میری خواہش ہے کہ تمہیں برسر حکومت کر کے تم سے باقاعدہ شادی کر لوں۔ بابک کہنے لگا میں تمہارے شوہر کا ایک ادنیٰ خادم تھا۔ لوگ میری متابعت پر کس طرح رضامند ہوں گے اور تمہاری قوم میرے ساتھ تمہارے عقد نکاح کو کیونکر گوارا کرے گی؟ عورت نے کہا میں نے ایک حیلہ تجویز کیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ میں لوگوں کو اپنے ڈھب پر لانے میں کامیاب ہو جاؤں گی۔
بابک نے پوچھا تم نے کیا حیلہ تراشا ہے؟ بولی میں تمام قوم کو جمع کر کے ان سے کہوںگی کہ جاویدان نے اپنی وفات سے پہلے کہا تھا کہ آج رات میں نے مرنے کا قصد کیا ہے۔ لیکن میری روح تن سے مفارقت کرتے ہی بابک کے بدن میں داخل ہو جائے گی اور اس کی روح سے متحد ہو جائے گی۔ میرے بعد بابک ہی میری قوم کا سردار ہوگا۔ وہ جبابرہ کو ہلاک کر کے قوم کو ازسرنو زندگی بخشے گا اور قوم کے درماندہ لوگوں کو آسمان عزت پر بٹھائے گا۔ یہ سن کر بابک کا ساغر دل خوشی سے چھلک گیا اور کہا: ہاں کوئی ایسی ہی تدبیر کرو۔ دوسرے دن عورت نے جاویدان کے لشکر کو جمع کر کے اس کے مرنے کی اطلاع دی۔ عماید سپاہ پوچھنے لگے اس نے مرنے سے پہلے ہم لوگوں کو بلا کر کیوں وصیت نہ کی؟ عورت نے اپنی سخن تراشیوں سے سب کو مطمئن کر دیا۔ قائدین لشکر کہنے لگے ہمیں حسب وصیت اس نوجوان کی متابعت منظور ہے۔ چنانچہ سب نے اس سے بیعت کی اور عورت نے بابک سے باقاعدہ نکاح کر لیا۔
شرمناک اخلاقی تعلیم
اقبال کی کامرانی دیکھو کہ کس طرح ایک ادنیٰ خادم آسمان عزت پر نمودار ہوا اور اس کا رایت اقبال دفعتہ سپہر بریں سے باتیں کرنے لگا۔ بابک پہلے اسمعیلی تھا۔ پھر مزدکی بنا۔ پھر خود ایک فرقے کی بنا ڈالی جسے بابکیہ، خرمیہ، سبعیہ اور حرمیہ وغیرہ ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ پہلے تو اپنے اندر جاویدان کی روح بتاتا تھا۔ پھر یہ کہنا شروع کیا کہ خدا کی روح نے میرے اندر حلول کیا ہے۔ اس نے اپنے پیروؤں کو عقیدہ تناسخ کی تعلیم دی اور ہنود کی طرح کہتاتھا کہ روحیں انسانوں اور حیوانوں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ چونکہ اس نے ہر قسم کے مذہبی اور اخلاقی قیود اٹھا کر عیش وعشرت کا بازار گرم کیا۔ پیروؤں کو حرام کاری، شراب نوشی اور دوسرے فواحشات کی اجازت دی۔ یہاں تک کہ محرمات ابدیہ سے بھی عقد مناکحت جائز کر دیا۔ اس بناء پر اس کے پیروؤں کو خرمیہ بھی کہنے لگے۔ کیونکہ خرم عیش وفرح کو کہتے ہیں۔ باوجودیکہ بابک کی اخلاقی تعلیم دنیا بھر کے فواحش کا