مگر جبریل نے بھی ان کی جان نہ چھوڑی۔ اعداء کا تعاقب کرتا اور بھگوڑوں کو مارتا کاٹتا بجلی کی طرح قلعہ سیام پر جاکڑکا اور اس وقت تک ان کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک وہ قلعہ میں نہ جا چھپے۔ اب خلیفہ نے ایک اور سپہ سالار معاذ بن مسلم کو سترہزار فوج اور چند آزمودہ کار فوجی سرداروں کے ساتھ مقنع کی سرکوبی کے لئے روانہ فرمایا۔ معاذ کے مقدمۃ الجیش کا افسر اعلیٰ سعید بن عمرو حریشی تھا۔ اس کے بعد ایک اور مشہور سپہ سالار عقبہ بن مسلم بھی ایک بڑی جمعیت کے ساتھ جیش موحدین میں آشامل ہوا۔ ان دونوں نے اتفاق رائے سے طوادیس کے مقام پر مقنع کے لشکر پر حملہ کیا۔ مقنع کی جمعیت پہلے ہی حملے میں ٹوٹ گئی اور اس کے جنگ آور سخت بے ترتیبی سے بھاگ نکلے اور سینکڑوں کھیت رہے۔ ہزیمت خوردہ فوج نے قلعہ سیام میں مقنع کے پاس جادم لیا۔
یہ دیکھ کر مقنع نے فوراً قلعہ بندی کی اور تمام مورچوں کو مضبوط کیا۔ معاذ بن مسلم نے فی الفور محاصرہ ڈال دیا۔ لیکن اس کے بعد خود معاذ بن مسلم اور سعید بن عمرو حریشی میں کشیدگی ہوگئی۔ سعید نے خلیفہ مہدی کے پاس معاذ کی شکایت لکھ بھیجی اور یہ بھی درخواست کی کہ اگر مجھے تنہا مقنع کے مقابلہ پر مامور فرمایا جائے تو میں اس کا فوراً قلع قمع کر سکتا ہوں۔ خلیفہ مہدی نے اس کی درخواست منظور کر لی۔ چنانچہ سعید بن عمرو حریشی بلا مشارکت معاذ مقنع کے مقابلہ پر مستعد ہوا۔ لیکن معاذ نے پھر بھی بے نفسی سے کام لیا اور اسلامی عزت وناموس کا لحاظ کر کے اپنے بیٹے کو سعید کی مدد پر بھیج دیا۔ کاش ہمارے مسلم رہنما معاذ کی مثال سے سبق آموز ہوکر اسلامی مفاد پر ذاتیات کو قربان کرنے کی عادت کر لیں۔
ملتان سے دس ہزار کھالوں کی روانگی
سعید حریشی مدت تک اس کوشش میں منہمک رہا کہ اسلامی لشکر کسی طرح خندق کو عبور کر کے فصیل قلعہ تک پہنچے۔ مگر کوئی تدبیر سازگار نہ ہوئی۔ مساعی تسخیرکو شروع ہوئے متعدد سال گذر گئے۔ لیکن یہاں ہنوز روز اوّل تھا۔ اس مدت میں اسلامی لشکر کو بہت سا جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ کیونکہ موسمی خرابیوں کے علاوہ سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ مقنع کے پیرو اسلامی لشکر پر جو کھلے میدان میں محاصرہ کئے پڑا تھا۔ ہر وقت قلعہ سے تیر چلاتے اور سنگ باری کرتے رہتے تھے۔ لیکن باایں ہمہ مشکلات سعید نے ہمت نہ ہاری اور اپنی جدوجہد کو نہایت اولوالعزمی کے ساتھ جاری رکھا۔ اب اس نے لوہے اور لکڑی کی بہت لمبی لمبی سیڑھیاں بنوائیں تاکہ ان کو خندق کے دونوں سروں پر رکھ کر پار ہو جائیں۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ کیونکہ خندق کی چوڑائی مسلمان انجینئروں کے اندازہ سے زیادہ نکلی۔