اب سعید نے خلیفہ مہدی کو لکھا کہ بہت جتن کئے۔ لیکن قلعہ تک رسائی نہیں ہوسکی۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ کسی طرح خندق کو پاٹ دیا جائے۔ ان ایام میں متحدہ ہندوستان میں سندھ اور پنجاب کا جنوبی حصہ خلافت بغداد کے زیرنگین تھا۔ خلیفہ نے اپنے حامل سندھ کو لکھا کہ گائے بیل اور بھینس کی جس قدر کھالیں فراہم ہوسکیں جلد ان کے بھجوانے کا انتظام کیا جائے۔ شاید اس زمانہ میں یا اسلامی قلمرو میں بوریاں نہ ملتی ہوں گی۔ ورنہ ریت بھرنے کے لئے کھالوں سے زیادہ کارآمد تھیں۔فرمان خلافت کے بموجب ملتان سے دس ہزار کھالیں بھیج دی گئیں۔ سعید نے ان کھالوں میں ریت بھروا بھروا کر ان کو خندق میں ڈلوانا شروع کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی ہی مدت میں خندق پٹ گئی اور محاصرین قلعہ کی دیواروں کے پاس پہنچ گئے۔
اب حصار شکن آلات سے کام لیا جانے لگا اور ساتھ ہی قلعہ پر حملے شروع کر دئیے گئے۔ مقنع کے پیروؤں نے یہ حالت دیکھی تو عالم یاس میں گھبرا کر مخفی طور پر سعید سے امان طلب کی۔ سعید نے امان دے دی۔ چنانچہ تیس ہزار آدمی قلعہ سے باہر نکل آئے۔ اب مقنع کے پاس صرف دوہزار جنگ آور باقی رہ گئے۔
مقنع کی خدائی کا خاتمہ
جب سعید نے محاصرے میں زیادہ سختی کی تو مقنع نے اپنی ہلاکت کا یقین کر کے اپنے اہل وعیال کو جمع کیا اور بقول بعض مورخین جام زہر پلا پلا کر سب کو نذر اجل کر دیا اور انجام کار خود بھی جام زہر پی لیا۔ مرتے وقت اپنے عقیدت مندوں سے کہنے لگا کہ بعد از مرگ مجھے آگ میں جلا دینا تاکہ میری لاش دشمن کے ہاتھ میں نہ جائے۔ لشکر اسلام نے قلعہ میں داخل ہوکر مقنع کا سرکاٹ لیا اور خلیفہ کے پاس بھیج دیا۔ بعض کہتے ہیں کہ قلعہ میں جس قدر چوپائے اور مال واسباب تھا پہلے اس کے جلانے کا حکم دیا پھر ساتھیوں سے کہا کہ جس کسی کو اس بات کی خواہش ہو کہ میرے ساتھ خلد بریں پہنچ جائے وہ میرے ساتھ اس آگ میں کود پڑے۔ سب خوش اعتقادوں نے حکم کی تعمیل کی اور آگ میں کود کر خاک سیاہ ہوگئے۔
جب اسلامی لشکر قلعہ میں داخل ہوا تو کسی انسان یا چارپایہ کا نام ونشان نہ پایا۔ یہ ۱۶۳ھ کا واقعہ ہے۔ اس کے اکثر پیرو جو اکناف ملک میں زندہ رہ گئے اس کے فقدان سے اور زیادہ فتنے میں پڑے اور یہ اعتقاد کر بیٹھے کہ مقنع آسمان پر چلا گیا ہے۔ مقنع کے وہ معتقد جو لڑائیوں میں اس سے علیحدہ ہو گئے تھے اس کے فقدان کی خبر سن کر بہت تاسف کرتے تھے کہ مقنع جو فی الحقیقت خدا تھا افسوس کہ ہم نے اخیر تک اس کا ساتھ نہ دیا۔ ورنہ ہم بھی اس کے ساتھ آسمانوں پر چڑھ جاتے۔