اعتقادوں نے ایک ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔ دن نکلنے پر شہر کے قاضی صاحب چند رؤسائے شہر کو ساتھ لے کر اس بزرگ ہستی کا جمال مبارک دیکھنے کے لئے مدرسہ میں آئے۔ قاضی صاحب نے نہایت نیازمندانہ لہجہ میں التماس کی کہ حضور والا! سارا شہر اس قدرت خداوندی پر متحیر ہے۔ اگر حقیقت حال کا چہرہ بے نقاب فرمایا جائے تو بڑی نوازش ہوگی۔
اسحق جو اس وقت کا پہلے سے منتظر تھا نہایت ریاکارانہ لہجہ میں بولاکہ آج سے کوئی چالیس دن پہلے فیضان الٰہی کے کچھ آثار نظر آنے لگے تھے۔ دن بدن القائے ربانی سرچشمہ میرے باطن میں موجزن ہوا۔ حتیٰ کہ آج رات خدائے قدوس نے اپنے فضل مخصوص سے اس عاجز پر علم وعمل کی وہ وہ راہیں کھول دیں کہ مجھ سے پہلے لاکھوں رہروان منزل اس کے تصور سے بھی محروم رہے تھے اور وہ وہ اسرار وحقائق منکشف فرمائے کہ جن کا زبان پر لانا مذہب طریقت میں ممنوع ہے۔
البتہ مختصراً اتنا کہنے کا مجاز ہوں کہ آج رات دو فرشتے حوض کوثر کا پانی لے کر میرے پاس آئے۔ مجھے اپنے ہاتھ سے غسل دیا اور پھر کہنے لگے ’’السلام علیک یا نبی اﷲ‘‘ میں یہ سن کر گھبرایا کہ واﷲ اعلم! یہ کیا ابتلاء ہے۔ ایک فرشتہ بزبان فصیح یوں گویا ہوا: ’’یا نبی اﷲ افتح فاک باسم اﷲ الازلی‘‘ (اے اﷲ کے نبی بسم اﷲ پڑھ کر ذرا منہ تو کھولئے) میں نے منہ کھول دیا اور دل میں بسم اﷲ الازلی کا ورد کرتا رہا۔ فرشتے نے ایک سفید سی چیز میرے منہ میں رکھ دی۔ یہ تومعلوم نہیں کہ وہ کیا چیز تھی۔ البتہ اتنا جانتا ہوں کہ شہد سے زیادہ شیریں، کستوری سے زیادہ خوشبودار، برف سے زیادہ ٹھنڈی تھی۔ اس نعمت خداوندی کا حلق سے نیچے اترنا تھا کہ میری زبان گویا ہوگئی اور میں بے اختیار کلمۂ شہادت پڑھنے لگا۔
یہ سن کر فرشتوں نے کہا محمد(ﷺ) کی طرح تم بھی رسول اﷲ ہو۔ میں نے کہا میرے دوستو! تم یہ کیسی بات کہہ رہے ہو۔ مجھے اس سے سخت حیرت ہے۔ بلکہ میں تو عرق انفعال میں ڈوبا جاتا ہوں۔ فرشتے کہنے لگے خدائے قدوس نے تمہیں اس قوم کے لئے نبی مبعوث فرمایا ہے۔ میں نے کہا کہ باری تعالیٰ نے سیدنا محمد مصطفیﷺ کو خاتم الانبیاء قرار دیا اور آپ کی ذات اقدس پر نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔ اب میری نبوت کیامعنی رکھتی ہے؟ کہنے لگے درست ہے۔ مگر محمد(ﷺ) کی نبوت مستقل حیثیت رکھتی ہے اور تمہاری بالتبع اور ظلی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مرزائیوں نے انقطاع نبوت کے بعد ظلی بروزی نبوت کا ڈھکوسلہ اسی اسحاق سے اڑایا ہے۔ ورنہ قرآن وحدیث اور اقوال سلف صالحین میں اس مضحکہ خیز نبوت کا کہیں وجود نہیں۔