میں ظاہر ہوا۔ ان ایام میں ممالک اسلامیہ پر خلیفہ سفاح عباسی حکمران تھا۔ اہل سیر نے اس کی دکان آرائی کی جو کیفیت لکھی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلے اس نے صحف آسمانی، قرآن، تورات، انجیل اور زبور کی تعلیم حاصل کی۔ پھر جمیع علوم رسمیہ کی تکمیل کے بعد زمانہ دراز تک مختلف زبانیں سیکھتا رہا۔ مختلف قسم کی صنّاعیوں اور شعبدہ بازیوں میں مہارت پیدا کی اور ہر طرح سے باکمال اور بالغ النظر ہوکر اصفہان آیا۔
دس سال تک گونگا بنا رہا
اصفہان پہنچ کر ایک عربی مدرسہ میں قیام کیا اور دس سال تک کی مدت ایک تنگ وتاریک کوٹھڑی میں گذاردی۔ یہاں اس نے اپنی زبان پر ایسی مہر سکوت لگائے رکھی کہ ہر شخص اسے گونگا یقین کرتا رہا۔ اس مدت میں کسی کو کبھی وہم وگماں بھی نہ ہوا کہ یہ شخص بھی قوت گویائی سے بہرور ہے یا یہ شخص علامۂ دہر اور یکتائے روزگار ہے۔ اسی بناء پر یہ اخرس یعنی گونگے کے لقب سے مشہور ہوگیا۔ دس سال تک ہمیشہ اشاروں کنایوں سے اظہار مدعا کرتا رہا۔ ہر شخص سے اس کا رابطۂ مودت قائم تھا۔ کوئی چھوٹا بڑا ایسا نہ ہوگا جو اس کے ساتھ اشاروں، کنایوں سے تھوڑا بہت مذاق کر کے تفریح طبع نہ کر لیتا ہو۔
اتنی صبر آزما مدت گذار لینے کے بعد آخر وہ وقت آگیا جبکہ وہ اپنی مہرسکوت توڑنے اور کشور قلب پر اپنی قابلیت اور نطق وگویائی کا سکہ بٹھائے۔ اس نے نہایت رازداری کے ساتھ ایک نہایت نفیس قسم کا روغن تیار کیا۔ اس روغن میں یہ صفت تھی کہ اگر کوئی شخص اسے چہرے پر مل لے تو اس درجہ حسن وتجلی پیداہو کہ شدت انوار سے اس کے نورانی طلعت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا مشکل ہو۔ اسی طرح اس نے خاص قسم کی دو رنگدار شمعیں بھی تیار کر لیں۔ اس کے بعد ایک رات جب کہ تمام لوگ محو خواب تھے اس نے وہ روغن اپنے چہرے پر ملا اور شمعیں جلا کر سامنے رکھ دیں۔ ان کی روشنی میں ایسی چمک دمک اور رعنائی ودلفریبی پیدا ہوئی کہ آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں۔ اب اس نے اس زور سے چیخنا شروع کیا کہ مدرسہ کے تمام مکین جاگ اٹھے۔ اب وہ نماز پڑھنے لگا اور ایسی خوش الحانی اور تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنے لگا کہ بڑے بڑے قاری بھی عش عش کر اٹھے۔
جب مدرسہ کے معلمین اور طلبہ نے دیکھا کہ گونگا بآواز بلند قرأت کر رہا ہے اور قوت گویائی کے ساتھ اسے اعلیٰ درجہ کی فصاحت اور فن تجوید کا کمال بھی بخشا گیا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اس کا چہرہ ایسا درخشاں ہے کہ نگاہ نہیں ٹھہر سکتی تو لوگ سخت حیرت زدہ ہوئے۔ اس کا ہر طرف چرچہ ہونے لگا اور شہر میں ہلڑ مچ گیا۔ لوگ رات کی تاریکی میں جوق درجوق آرہے تھے۔ خوش