تھی ، بالآخر وہ دیوانہ مل گیا ، وہ اپنی سرمستی میں طواف کررہا تھا ، طواف کرچکا تو امیر المومنین نے اس کا راستہ روکا ، دیوانہ نکلا جارہا تھا ، مگر امیر المومنین کی جلالت قدر نے اسے رکنے پر مجبور کردیا ، تعارف ہو ا، دعا کی درخواست ہوئی ، حضرت عمر صنے فرمائش کی ، اویس! کچھ نصیحت کرو ، عرض کیا ، آپ صحابی ٔ رسول ! میں آپ کے پاؤں کی دھول ! میں کیا نصیحت کروں ، فرمایا نہیں کچھ تو کہو ، دیوانہ تو دیوانہ مگر بات کی ہشیاری کی، حضرت! آپ خدا کو جانتے ہیں ؟ ہاں کیوں نہیں ، اپنی بساط بھر جانتا پہچانتا ہوں ، دیوانہ بولا پھر آپ خدا کے علاوہ کسی اور کو نہ جانیں تو اچھا ہے ، حضرت عمر پر سکتہ سا طاری ہونے لگا ۔ اور حضرت ! اﷲ تعالیٰ آپ کو جانتے ہیں ؟ ہاں کیوں نہیں ، انھیں ذرے ذرے کی خبر ہے ، دیوانہ پھر بولا ، تو اگر آپ کو خدائے تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی نہ جانے تو اچھا ہے ، حضرت عمر ص رو پڑے ، اور دیوانہ اپنی شوریدگی میں کسی طرف نکل گیا ۔
میرے سامنے ایک شخصیت ہے ، بچپن اس کا محبت کی معصوم فضاؤں میں گذرا ۔ جوانی آئی تو گردشِ زمانہ نے سخت ٹھوکر لگائی ، مگر سنبھالنے والا اسے سنبھالے رہا ۔ اب اس کا بڑھاپاہے ، آفتابِ عمر لب بام آگیا ہے ، اب کوئی دم ہے کہ کانوں میں یَا أَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ إِرْجِعِیْ إِلیٰ رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً ( اے نفس مطمئنہ! اب اپنے رب کے حضور لوٹ چل ، اس حال میں لوٹ چل کہ تو بھی راضی اور وہ بھی راضی ) کی صدائے دلنواز گونجنے والی ہے ، اور وہ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ (میرے خاص بندوں میں شامل ہوجا )کی رہنمائی میں انھیں لوگوں کے جھرمٹ میں جاپہونچے گی ، جس کی یاد میں اس نے آنسو دریا دریا بہائے ہیں ، زندگی تڑپ تڑپ کر بسر کی ہے ، اور سب کے ساتھ مل کر وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (میری جنت داخل ہوجا ) کا روح پرور نغمہ سنتے ہوئے جنت میں جاداخل ہوگی ، جہاں ناقدری کی شکایت نہ ہوگی !