(مــــزیـــــــــــد)
رابطوں سے متعلق اتنا اور عرض کروں کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر میں نے رابطے کی صورت دیکھی ہے ، لیکن علم دین اور تعلیم کے حق میں اس کا ضرر کچھ زیادہ ہی دیکھنے میں آیا ۔ بلکہ مجھے تو یہ تجربہ بھی ہے کہ ہمارے ہندوستان جیسے ملک کے مدارس میں ، دوسرے مدارس کے علماء واربابِ انتظام سے بہت زیادہ ربط نہ رکھا جائے ۔ تو کچھ زیادہ غیر مناسب نہ ہوگا ۔ یہ ’’اعجاب کل ذی رای برایہٖ ‘‘کا دور ہے ۔ اﷲ جانے ایک شخص دوسرے مدرسہ میں جاکر کیا اثر چھوڑے ؟کون سا بیج بودے ؟ بعض لوگوں کے ساتھ خلاف وشقاق اس طرح لگا ہوا ہے کہ جہاں جاتے ہیں ، کچھ نہ کچھ زہر یلا تخم پڑہی جاتا ہے ۔
میں الہ آباد میں پڑھاتا تھا ۔ ایک جگہ سے دس بارہ آدمیوں پر مشتمل ایک قافلہ آیا ۔ جو دہلی جارہا تھا ، اسے اپنے یہاں کسی کام کی منظوری ، حضرت مولانااسعد صاحب کے واسطے سے حکومت سے لینی تھی ۔ یہ لوگ شام کے وقت الہ آباد حضرت شاہ وصی اﷲ صاحب علیہ الرحمہ کی خانقاہ میں پہونچے ، ایک استاذ نے ان کی ضیافت کی ، یہ سب خواص تھے ، ان میں علماء بھی تھے ، ارباب سیاست بھی تھے ، عشاء کی نماز کے بعد کھانے سے فارغ ہوکر ایک صاحب کھڑے ہوئے ، اور خطبہ پڑھا ، مجھے تعجب ہوا کہ یہ صاحب اس وقت کیسی تقریر کریں گے ۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ سب لوگ فلاں جگہ کے رہنے والے ہیں ، اورصبح سے اب تک سب لوگ ساتھ ہیں ، اور کسی بات پر آپس میں اختلاف نہیں ہوا ، یہ کہہ کر وہ صاحب بیٹھ گئے ، میں لرز گیا کہ دیکھئے اب کیا ہوتا ہے ،قافلہ پلیٹ فارم تک پہونچتے پہونچتے دو فرقوں میں تقسیم ہوگیا ، نزاع شروع ہوگئی ، گاڑی میں جب بیٹھنے کا وقت آیا ،