اعجازاحمد اعظمی
یکم ؍ ذوالقعدہ ۱۳۹۴ھ
٭٭٭٭٭
(۱۵)
عزیزم وسیم احمدسلّمک اﷲ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
تمہارے پہلے خط کا جواب دے چکا ہوں ، اب مل گیا ہوگا ، الحمد ﷲ خیریت سے ہوں ، گزشتہ خط میں تم نے استعداد کے متعلق دریافت کیا تھا ، اس کے بارے میں مختصراً تحریر کرتا ہوں ۔ استعداد کے معنیٰ عرف کے لحاظ سے صلاحیت کے ہیں ، آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو بالکل سادہ ہوتا ہے ، مگراس کے اندر کچھ ایسے اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں ،کہ ان کو اجاگر کرکے دنیا جہاں کے بہت سے کام لئے جاسکتے ہیں ، اس کی مثال زمین کی سی ہے کہ اوپر سے تو بالکل سپاٹ ہوتی ہے مگر اس قابل ہوتی ہے کہ اس کو کھود کر ، جوت کر عمدہ سے عمدہ فصل تیارکی جائے ، اب یہ کسان کی محنت پر ہے کہ وہ کیسی کوشش کرتا ہے ، اس مثال سے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ انسان ذی استعداد ہوتا ہے ، لیکن محاروہ کے اعتبار سے جس کی صلاحیتیں بروئے کار آجاتی ہیں اسے ذی استعداد کہاجانے لگتا ہے ، اس سے تم یہ سمجھ گئے ہوگے کہ اصل سوال استعداد کے متعلق یہ نہیں ہے کہ وہ کیا شیٔ ہے ؟ بلکہ یہ ہے کہ اس کو کیسے اُجاگر کیاجائے کہ اس سے کماحقہٗ کام لیا جاسکے ، اس کی ایک بہت اچھی مثال ذہن میں آگئی ، سنو ! دیکھا ہوگا کہ مزیک کا فرش بنتا ہے تو ابتدائی احوال میں کیسا کچھ ہوتاہے ، پھر اس کو پتھر کی مخصوص بٹّی سے گھساجاتا ہے ، کافی محنت ہوتی ہے ، پھر اس میں مختلف رنگ کے دانے نمودار ہوکر چکنے