﷽
مکتوب نمبر (۱)
عزیزم مولوی وسیم احمد سلمک اﷲ تعالیٰ وزادک علماً وفضلاً
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
آج تمہارا خط عین انتظار ہی میں ملا ، فجزاک اﷲ، طبیعت بہت خوش ہوئی ، سوچ رہا تھا کہ تقریر کی رسید آجائے تو دوبارہ خط لکھوں ، مگر آج کل طبیعت ایسی ہے کہ از خود لکھنے کو جی چاہتا ہے ، یہ اچھا کیا کہ خط اپنے ساتھیوں کو دکھادیا ۔
حقیقت یہ ہے کہ تم لوگوں کی ایک سالہ رفاقت نے مجھ پر کچھ عجیب اثر ڈالا ہے ، نہ جانے کیوں میرے دل میں یہ خواہش باربار کروٹ لیتی ہے کہ تم لوگوں کو علم وعمل کے اچھے منصب پر دیکھوں ۔
میرے عزیز! میں کچھ نہ بن سکا ، اس لئے اپنوں کو بنتے دیکھ کر خوشی ومسرت چھانے لگتی ہے اور ان کی کوتاہیوں اور لغزشوں سے ٹھیس لگتی ہے ، اگر کچھ دن ساتھ رکھنا خداکو اور منظور ہوتا تو اپنی آنکھوں کے سامنے تم لوگوں کو پروان چڑھتے دیکھتا ، مگر کیا فرق پڑتا ہے اپنی اولاد اپنی ہی ہوتی ہے خواہ کہیں پرورش ہو ، اﷲ نے تمہیں شوق دیا ہے ، ہمت دی ہے ، دل ودماغ دیا ہے ، اساتذہ میسر ہیں ، کتابیں مہیا ہیں ، ماحول ملا ہے ، جس قدر محنت کرسکوکرکے علم حاصل کرلو ، لوگوں نے اس متاع علم کے لئے دَر دَر کی ٹھوکریں کھائی ہیں ، مصائب جھیلے ہیں ، مشرق کی طنابیں مغرب سے ملادی ہیں ، راتوں کی سرحدیں دنوں سے ملائی ہیں ، خون جگر جلایا ہے ، تب کہیں جاکرکچھ آیا ہے ، اب تو بہت ساری سہولتیں فراہم ہیں ، زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاؤ ، سمجھ کر پڑھو ، پڑھ کر سمجھانے کی کوشش کرو ۔