اعجاز احمد اعظمی
۱۸؍ رمضان المبارک ۱۳۹۵ھ
٭٭٭٭٭
(۱۹)
عزیزوسیم! جعلک اﷲ وسماً علی الاسلام
و علیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
غالباً دوتین روز ہوئے تمہارا خط ملا ، الحمد ﷲ کہ میرے مندرجات نے تمہیں نفع دیا ، میری آرزو ہے کہ تم لوگ جن کو مجھ سے تعلق ہے وہ سچے معنی میں طالب علم بنیں ، اور اس کا طریق یہی ہے کہ حصول علم کے جتنے اسباب عادیہ ہیں ان کو مہیا کیا جائے ، اور عوائق وموانع کو دفع کرتے رہا جائے ۔ اس کے اسباب تو یہ ہیں کہ علم اور ذرائع علم کا پورے طور پر ادب واحترام بجا لایا جائے ، کامل توجہ ، یکسوئی اور انہماک کے ساتھ مشغول رہا جائے ۔ اور موانع یہ ہیں کہ وقت ، دماغ اور قوت کو فضولیات ولغویات یا ناروا چیزوں میں برباد وضائع کیا جائے ، یا اپنے کو ذہین ، قابل ہوشیار سمجھ لیاجائے ، یا حصول علم میں عار وذلت محسوس کی جائے ، یا محنت ومشقت سے جی چرایا جائے ۔
بقدر الکد تکتسب المعالی ومن طلب العلیٰ سھر اللیالی
ومن رام العلیٰ من غیر کد أضاع العمر فی طلب المحال
اضاعت علم وذہن کا ایک بہت بڑا سبب گناہوں سے نہ بچنا بھی ہے ، افسوس میں تمہیں یہ حکم دے رہا ہوں کہ گناہ سے بچو اور خود نہیں بچتا ۔ میرے لئے دعا کرو ، یہ چیزیں جتنی خطرناک ہے بیان نہیں کیا جاسکتا ، اگر آدمی خدا اوررسول ا کی