بنام مولانا حافظ ضیاء الحق خیرآبادی (مرتب کتاب)
غالباً عیسوی سنہ ۱۹۷۷ء یا ۱۹۷۸ء تھا ، میں الہ آباد حضرت مصلح الامت علیہ الرحمہ کی خانقاہ میں مدرس تھا ۔ اس وقت کسی تقریب سے میرے گاؤں کے قریب خیرآباد کاایک قافلہ اترا۔ اس قافلہ کے ایک فرد حاجی عبد الرحمن صاحب مرحوم سے اسی وقت دوستی کی بنیاد پڑی ، پھر ان کی محبت مجھے بار بار کھینچ کر ان کے گھر لے گئی ، ان کے گھر کاہر فرد محبت کا پیکر ثابت ہوا ۔ انھیں افراد میں ایک چھوٹا سا بچہ بھی میری گود میں آکر بیٹھتا تھا ، یہ ’’ حاجی بابو‘‘ کہلاتا تھا ، کیونکہ یہ جب گود میں تھا ،تو والدین اسے حج میں لے گئے تھے ، جوں جوں یہ بچہ بڑا ہوتارہا مجھ سے مانوس ہوتا رہا ، اور اس کی ذہانت وذکاوت بال وپر نکالتی رہی ۔ مکتب میں تعلیم شروع ہوئی تو اردو کی درسی کتابوں کے علاوہ بھی بہت کچھ پڑھتا رہا ، مطالعہ کا بیحد شوقین !پھر قرآن کریم حفظ کیا ، حافظ ہونے کے بعد کئی سال میں نے اس کے پیچھے تراویح پڑھی ۔ عربی درجات کاآغاز ہوا، تو میرے پاس مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور میں آگیا ، یہاں جلالین شریف تک عربی کی باستثنادوایک کتابوں کے سب کچھ مجھ سے پڑھا ، سفر حضر میں میری رفاقت اختیار کی ، اور ہر جگہ درس جاری رہا ، پھر دار العلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کی تکمیل کی ، طالب علمی کے زمانے میں میرے سفر پاکستان اور پھر سفر حج میں رفیق رہا ، اور تعلم کا