میں غلط نظریات وافکار داخل کرنے کی گستاخی کی ہے ، لیکن سب کی قلعی کھلتی رہی ، اگر کچھ مسخروں نے سرے سے ایصال ثواب کا انکار کیا تو کچھ خوش فہموں نے ایصال ثواب کے سیدھے سادے شرعی طریقہ میں بہت کچھ اعمال ومعمولات داخل کئے ، لیکن علماء حق نے جہاں ان کی تفریط کو دور کیا وہیں دوسروں کے اِفراط پر بھی قدغن لگائی ، اور جتنا کچھ احادیث سے ثابت ہے اس کو واضح کردیا ۔
رہا یہ کہ اس کے ابطال میں آیات قرآنی پیش کی جارہی ہیں تو یہ محض سمجھ کا قصور ہے ، یا دیدۂ ودانستہ بد دیانتی ہے ، یہ شور وغوغا بھی عارضی اور چند روزہ ہے ، سیلاب کی جھاگ ہے ۔ ان شاء اﷲ بہت جلد یہ جھاگ اڑجائے گی ، اور حق کا آبِ زلال باقی رہے گا ۔
اعجاز احمداعظمی
۲۶؍ زوالحجہ ۱۴۰۴ھ
٭٭٭٭٭
(چوتھی مجلس )
عبدالخالق صاحب ! آپ نے احادیث کا انکار کرکے قرآن فہمی کا کوئی اصول تو متعین کیا نہیں ، جو کچھ آپ کی ناقص فہم میں آتا گیا ، قلم کا گھوڑا دوڑاتے گئے ۔ آپ کی پوری کتاب دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ آپ نے قرآن کے ترجموں کا مطالعہ صرف اس واسطے کیا ہے کہ آیاتِ قرآنی سے کون کون سی حدیثیں متصادم ہیں ۔ خواہ ان کا مطلب ومفہوم کچھ ہو آپ نے تعارض وتخالف ثابت کردیا ۔ میں تو قلم روک چکا تھا ، لیکن جی چاہا کہ ایک آئینہ اور آپ کے سامنے رکھ دوں ، اگر آنکھوں میں کچھ بھی بینائی ہوگی تو چہرہ کا داغ نظر آجائے گا ۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : أفلا یتدبرون