بول ا ٹھے گا کہ پروردگار! یہ تو اس سے بہت زیادہ ہے ، جو میں سوچ سکتا تھا ، وہاں سے ارشاد ہوگا ، ابھی کیا ؟ بس چاہتے جاؤ ، مانگتے جاؤ، انسان کا حوصلہ تمام ہوجائے گا ، تب ندا آئے گی : وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ ، ابھی تو ہمارے پاس بہت کچھ ہے ۔
آپ نے سچ کہا ، اور صحیح محسوس کیا کہ پہلے جو محبت دکھائی دے رہی تھی، اب وہ حسد ونفاق میں بدل گئی ہے ، بالکل بجا ! محبت کے لئے کچھ مخصوص دل ہوتے ہیں ، (۲) اور حسد ہر دل کو اپنا آشیانہ بنانے کی فکر میں رہتا ہے ، اور عموماً وہ کامیاب رہتا ہے، محبت غیور ہے ، وہ حسد ونفاق کو آتا ہوا دیکھتی ہے تو رُخصت ہوجاتی ہے ، حسد بے حیا ہے ، وہ ہر جگہ گھستا ہے ، آپ نے جس قوم کا تذکرہ کیا ہے ، اس کا تمام تر رشتہ حسد اور خود غرضی ہی سے ہے ، وہ نام محبت کا ضرور لیتی ہے ، لیکن کلام میں رنگ بھرنے کے لئے ! برتنے کے لئے نہیں ، برتنا جگر کاوی کا عمل ہے ، بات بنانی آسان ہے ۔ وہاں تمام جلوہ گری حسد اور نفا ق کی ہے ، اور اس میں وہ معذور ہے ،ا س نے محبت کا نام سنا ہے اسے سیکھا نہیں ہے ، اس لئے اس کی زندگی اندر سے تاریک ہوتی ہے ، چراغ باہر جل رہا ہے ، اندر روشنی نہیں ہے ۔
لیکن ہمارا رشتہ ان ہستیوں سے ہے ، جن کی نگاہ بجز ربّ کائنات کے کسی پر پڑی ہی نہیں ، مخلوق پر اگر نظر ڈالی تو ترحم وتلطف کی نظر ڈالی ، فقر واحتیاج کی نہیں ، وہ دے کر خوش ہوتے ہیں ، لینے کا جذبہ نہیں رکھتے ، شہرت ان کے قدموں کو چھونا چاہتی ہے ، وہ اسے ٹھکرا دیتے ہیں ۔
خواجہ فرید الدین عطاررحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب صمکے کی گلیوں میں ، حرم شریف کے صحن میں ، ایک دیوانے کو تلاش کررہے تھے ، انھیں اس سے ملنے کا اشتیاق تھا ، انھوں نے زبانِ نبوت سے اس کی تعریف سنی