واختلافے کہ درمیانِ اصحابِ پیغمبر علیہ وعلیھم الصلوت والتسلیمات واقع شدہ نہ از ہوائے نفسانی بود ، چہ نفوس شریفۂ ایشاں تزکیہ یافتہ بودند ، واز امارگی باطمینان رسیدہ ، ہوائے ایشاں تابع شریعت شدہ بود ، بلکہ آں اختلاف مبنی بر اجتہاد بود و اعلائے حق ، پس مخطی ٔ ایشاں نیز درجۂ واحدہ دارد عند اﷲ ، ومصیب را خود دودرجہ است ، پس زباں را از جفائے ایشاں باز باید داشت ، وہمہ را بہ نیکی یاد باید کرد ، قال الشافعی رحمہ اﷲ تعالیٰ : تلک دماء طھر اﷲ عنھا أیدینا فلنطھر عنھا ألسنتنا ،( مکتوب ۸۰ ، دفتر اول)
ترجمہ: اور وہ اختلافات جو رسول اﷲ ا کے اصحاب کرام ث کے درمیان واقع ہوئے تھے ، وہ نفسانی خواہشات کی وجہ سے نہیں تھے ، کیونکہ ان کے پاکیزہ نفوس تزکیہ حاصل کرچکے تھے اور امارگی ( کے درجہ )سے ( نکل کر) اطمینان ( کے درجہ) تک پہونچ چکے تھے ، ان کی تمام خواہشات شریعت مقدسہ کے تابع ہوچکی تھیں ،بلکہ وہ اختلاف اجتہاد اور حق بلند کرنے پر مبنی تھا ، پس ان میں سے ( اجتہادی ) خطا کرنے والا بھی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایک درجہ رکھتا ہے، اور صحیح اجتہاد کرنے والے کو تو دودرجے ( دوہراثواب) حاصل ہوتے ہیں ، پس اپنی زبان کو ان کی شان میں گستاخی کرنے سے روکنا چاہئے، اور ان سب کو نیکی سے یاد کرنا چاہئے۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں :
خلافے ونزاعے کہ درمیان اصحاب علیہم الرضوان واقع شدہ بود محمول بر ہوائے نفسانی نیست ، در صحبت خیر البشر نفوس ایشاں بہ تزکیہ رسیدہ بودند وازامارگی آزاد گشتہ ، ایں قدر می دانم کہ حضرت امیر دراں باب بر حق ماندہ اند ،