بنام مفتی سفیان احمد صاحب اعظمی
غالباً ۱۹۸۴ء میں مدرسہ بیت العلوم سرائمیر کے سالانہ جلسہ میں میری حاضری ہوئی تھی ۔ وہاں ایک ذہین وفطین طالب علم کو بہت غور اور اہتمام سے وعظ سنتے ہوئے دیکھا، پھر وعظ کے بعد وہ میرے قریب دیر تک رہا۔ جلسہ کے کچھ دنوں بعد جب مدرسوں کے تعلیمی سال کااختتام ہواتو وہی طالب علم مدرسہ دینیہ شوکت منزل میں میرے پاس اپنے چند رفقاء کے ساتھ آیااوردرخواست کی کہ ہم لوگ اگلے سال مدرسہ دینیہ میں پرھنا چاہتے ہیں ، چنانچہ ایک سال اس طالب علم نے مدرسہ دینیہ میں تعلیم حاصل کی ،پھر دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی ۔یہ ہیں مولانا سفیان احمد سلّمہ! کچھ دنوں گجرات کے ایک مدرسہ میں رہے ، پھر دوتین سال کے لئے سعودی عرب چلے گئے ، اور اب ایک طویل عرصہ سے میرے ساتھ مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور میں مصروف تدریس ہیں ۔
عزیزم السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
آج تمہارا خط ملا ، اس سے پہلے وہ خط ملا تھا جس میں تم نے رفع یدین فی الدعاء کا مسئلہ دریافت کیا تھا ، میں نے علی الفور اس کا ایک مختصر اور اجمالی جواب لکھا اور اس میں یہ وعدہ کیا تھا کہ انشاء اﷲ اس پر ایک مفصل اور سیر حاصل مضمون لکھوں گا ، مگر غلطی یہ ہوئی کہ المآثرکا جو پیکٹ بنایا اسی میں وہ خط بھی ڈال دیا، المآثر معلوم ہوتا ہے کہ راستے میں کہیں ضائع ہوگیا اسی کے ساتھ وہ خط بھی مرحوم ہوگیا ۔افسوس یہ ہے