بنام ڈاکٹر کلیم احمد عاجزؔ صاحب
ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب اس دور میں متاعِ درد وغم ، سرو رعشق ومحبت ، جذبۂ خلوص وبے نفسی اور انسانیت وشرافت کی ایک روشن علامت ہیں ۔ بہار کا یہ مظلوم انسان جس نے ابتداء جوانی میں فسادیوں ، رہزنوں اور قاتلوں کے ہاتھوں اپنے پورے خاندان ، اپنی پوری بستی بلکہ ایک خطے کے خطے کو برباد ہوتے دیکھا ۔ درد وغم کی اَنی دل میں اتری اور ٹوٹ کر رہ گئی ، اس درد کی کسک کو انھوں نے شعر وادب کا پیکر عطا کرکے دنیا والوں کے سامنے تحفہ کے طور پر پیش کیا ، خاموش مگر نہایت گہری سوچ والے ، یکسو مگر کام کی ہر چیز پر وسیع نگاہ رکھنے والے ، ان کی کتاب ’’ جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی ‘‘ سے تعارف ہوا، وہی ذریعۂ ملاقات بنی ، ان کی غزلوں کے مجموعہ ’’ وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘‘ نے ان کے دل کی ترجمانی کی ،بس وہ اپنے اس شعر کے ہوبہو مصداق ہیں ؎
کیسے کیسے دکھ نہیں جھیلے ، کیا کیا چوٹ نہ کھائے
پھر بھی پیار نہ چھوٹا ہم سے عادت بری بلائے
دنیا کا اپنے انداز کا نرالاالبیلا انسان ، نہایت دیندار، بہت ہی پُرسوز ، ان کا البیلاپن ، ان کا جذبۂ بیداری اور ان کا سوزِ دروں ،جب الفاظ کے پیکر میں جلوہ گر ہوتا ہے تو ادب وانشاء کا ایک نیا اُسلوب جنت نگاہ بنتا ہے۔ان کے خطوط کبھی میرے نام اور زیادہ تر عزیزی مولوی حافظ ضیاء الحق سلّمہ کے نام آتے رہتے ہیں ، ایک مرتبہ ان کاخط عزیزموصوف کے پاس آیا، جس میں عصر حاضر کے دانشوروں کی طرف سے ناقدری کا شکوہ تھا ، میں نے وہ خط ان سے لے لیا اور درج ذیل جواب لکھا۔(اعجاز احمد اعظمی)