(۹)
عزیزم زادک اﷲ علماً وفضلاً
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
تمہارا جوابی کارڈ ملا ، اس سے چندروز پہلے ایک کارڈ ملاتھا جس میں تم نے نیت تعلم کے متعلق دریافت کیا تھا ، عادت کے موافق فوراً جواب لکھنا چاہا ، مگر بعض شدید الجھنیں ایسی حائل ہوگئیں کہ کئی روز تک درس وتدریس میں بھی طبیعت حاضر نہ رہ سکی ، خیر اﷲ نے اپنے فضل وکرم سے ان سے نجات عطا فرمائی ، فالحمد ﷲ علیٰ ذٰلک ،سوچ رہا تھا کہ تمہارا سوال چونکہ تفصیل طلب ہے اس لئے قدرے اطمینان کے بعد لکھوں گا کہ تمہارا دوسرا خط باعث مسرت بنا ، سچی بات یہ ہے کہ تمہارا خط ملتا ہے تو بیحد خوشی ہوتی ہے اور بہت سے مضامین منشرح ہوکر ذہن میں آجاتے ہیں ، تمہارے جوابی خط سے مجھے یہ تو آسانی ہوتی ہے کہ ساتھ ساتھ جواب لکھ دیتاہوں جس سے تمہیں انتظار کی زحمت برداشت نہیں کرنی پڑتی ، مگر میرے بھائی شرمندگی بھی ہوتی ہے ، جوابی خطوط بڑے حضرا ت کے پاس جایا کرتے ہیں اور میں کیا ہوں ، بہر کیف تم نے مطالعہ کے سلسلے میں جو کچھ لکھا ہے اس کے متعلق یہ بات یادرکھو کہ کسی موڑ پر ہمت ہارنی نہیں چاہئے ۔ لغت نہ ہو نہ سہی ، صرف عبارت ہی اپنی امکان کی حد تک درست کرلیا کرو ، اور سمجھنے کے متعلق جو بات تحریر کی ہے وہ قابل اطمینان ہے ۔
جب استاذ کے یہاں بات سمجھ میں آجاتی ہے اور ٹھیک آتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ ذہن سے نکل جاتی ہو ، پھر دیکھو گے تو پھر آجائے گی ، ایساتو ہوتا ہے اس کو یاد کرنے کے چکر میں پڑوگے تو سب بھول جاؤگے ، مقصد مناسبت پیدا کرنا ہے ، عالم تو پڑھنے لکھنے کے بعد جب مطالعہ بڑھاؤگے تب بنوگے ، ابھی بس یہ ہے کہ