مکتوب بنام مولاناثناء اﷲ صاحب جون پوری
مدرسہ ریاض العلوم گورینی میں جن طلباء سے اختصاص رہا ، ان میں ایک ممتاز نام مولوی ثناء اﷲ کا ہے ۔ یہ مانی کلاں کے قریب ایک گاؤں ’’سونگر ‘‘ کے رہنے والے ہیں ۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی ، کچھ عرصہ گورکھپور اور بھدوہی میں خدمت دین کرتے رہے۔ اب اپنے گاؤں میں مقیم ہیں ۔ زمانۂ طالب علمی سے اب تک انھوں نے مجھ سے رابطہ قائم رکھا ہے۔
عزیزم ! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
تمہارا خط الحمد ﷲ خوش کُن ثابت ہوا ۔ حق تعالیٰ کو خوش رکھو ، اسی میں سارے جہاں کی خوشی ہے ، خدا کو ناراض کرنے والوں نے ایک لحظہ حقیقی خوشی نہیں پائی ہے ، اور جس چیز کو وہ اپنی خوشی سمجھتے ہیں یا دنیا والے اسے ان کے حق میں مسرت وشادمانی سمجھتے ہیں وہ ان کی بے حسی اور مردہ دلی ہے ۔ ورنہ مالک و مولیٰ کو ناراض کرنے کے بعد انسان کا قلب کانٹوں پر لوٹتا ہے ، اور خدا کو خوش کرلینا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے ، خوشی کی سب سے بڑی چیز تو ہر مسلمان کو حاصل ہے ، یعنی ایمان اس سے تو کوئی مومن خالی نہیں ہے ، بس ضعف وقوت کا فرق ہے اور ضعف بھی زیادہ تر اس لئے ہوتا ہے کہ آدمی دنیا بھر کے کاموں ، غلط صحبتوں اور لایعنی مشغولیات خواہ ذہنی ودماغی ہو ں یا عملی ، ان میں پڑکر اسے اپنے ایمان کی جانب التفات نہیں رہتا ۔ اگر ذرا بھی اسے التفات ہوتا ، اور ہر ہر معاملے پر یا کم ازکم ہر عجیب وقوعہ پر یا کسی خوشی وراحت یا رنج ومصیبت پر آدمی خدا سے تجدید تعلق اور تجدید ایمان کرتا رہے تو زیادہ دن نہ گزریں گے کہ اس کے ایمان میں قوت پیدا ہوجائے گی ۔ میرا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی ایسی بات ظاہر ہو ، جو دل میں حیرت واستعجاب یا خوشی ومسرت یا رنج وغم کی لہریں دوڑائے تو بجائے