ایسی شخصیت کو بھلا یہاں کے ناقدروں سے کیا شکوہ؟
اس نے سب کے ساتھ پیار کیا ہے اور کئے جارہا ہے ، اس نے دشمن کو گلے لگایا ہے ، اس نے کانٹوں کو پھول سمجھ کر اٹھایا ہے ، اس نے زخموں سے بھی پیار کیا ہے ، اور زخم دینے والے ہاتھوں کوبھی بوسہ دیا ہے ، آخر اسی نے تو کہا ہے ۔؎
کیسے کیسے دکھ نہیں جھیلے کیا کیا چوٹ نہ کھائے
پھر بھی پیار نہ چھوٹا ہم سے، عادت بری بلائے
دیکھئے ! میں بھی دیوانہ ہوا جارہا ہوں ، کیا کیا لکھتا چلا گیا ، لقمان کو حکمت سکھانے ایک طفل مکتب چلا ہے ، بس خاموش آگے حدِّ ادب ! لیکن کیا کروں ، آپ کے نامۂ محبت نے دل کی رگوں پر نشتر لگایا ، تو میں نے بھی لہو کو آزاد چھوڑدیا کہ بہہ لے جتنا بہہ سکے ، اب اسے آپ جانیں کہ یہ لہو رائیگاں گیا یا کچھ رنگ لائے گا ۔ والسلام
دعاؤں کا ملتجی
اعجاز احمد اعظمی
۲۸؍ ربیع الآخر ۱۴۲۱ھ مطابق ۳۱؍ جولائی ۲۰۰۰ء یکشنبہ
(۱)دیوانے دو۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کے ان خطوط کا مجموعہ ہے ، جو انھوں نے بہار کے گورنر جگناتھ کوشل کو لکھے۔ ’’دفتر گم گشتہ‘‘ ڈاکٹر صاحب کے پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے ، جس کا عنوان ہے ’’ بہار میں اردو شاعری کا رتقا ء ۱۸۵۷ء سے۱۹۱۴ء تک۔(مرتب)
(۲) اس جملے کو پڑھ کر بے ساختہ مخمور سعیدی کا یہ شعر یاد آگیا ،(مرتب) ؎
محبت کیلئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا
٭٭٭٭٭