ایک چوٹ سی لگتی ہے ، ایسی چوٹ جس میں لذت بھی ہے ، حلاوت بھی ہے ، ایسی چوٹ کہ اس سے پیار کرنے کو جی چاہتا ہے ، یہ زخم کبھی نہ بھرے ، یہ چوٹ کبھی نہ اچھی ہو ، یہی جی چاہتا ہے ، آپ کی یہ صدا دلوں میں جگہ بنارہی ہے ، پڑھنے والے پڑھتے ہیں ، اور پڑھ کر دیوانہ ہوتے ہیں ، اور دیوانہ ہوتے رہیں گے ۔ محبت خدا کے پاس سے چلی ہے ، بڑی پاکیزہ ، بڑی دل آویز ، بڑی روشن ، پھر یہ خاص خاص دلوں کو اپنا نشیمن بناتی ہے ، پھر وہاں سے نکل نکل کر بارش کی طرح برستی ہے ، اور سب اپنی اپنی استعداد اور اپنے اپنے ظرف کے بقدر فیضیاب ہوتے ہیں ، آپ فراموش ہوجائیں ، کیسے یقین دلاؤں کہ یہ ممکن نہیں ہے ، عشق ومحبت کا سرمایہ دار مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے ، دلوں میں زندہ رہتا ہے ، یادوں میں زندہ رہتا ہے ، حق تعالیٰ نے آپ کو یہ دولت دے کر لازوال بنادیا ہے ، موتی تو موتی ہے ، اس کی آب وتاب ہر حال میں باقی رہتی ہے ، ا س کی قدروہی کرے گا، جو اس کی پہچان رکھتا ہے ، اوراگر ناقدروں نے اس کی قدر نہیں کی تو ، قصور موتی کا نہیں ناقدروں کی کورنگاہی کا ہے ۔ پیغمبروں کا ان کی قوموں نے انکار کیا ، تو اس سے پیغمبروں کی قدروقیمت میں کوئی کمی نہیں آئی ، قوموں نے اپنی آبرو کھوئی ، پیغمبراپنی محنت کا صلہ اس بارگاہ سے پاتا ہے ، جس کے لئے اس نے اپنی جان کھپائی تھی ، وہ تو ابتداء ہی میں اعلان کردیتا ہے : إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَی اﷲِ ، ’’میری قدردانی اﷲ کے حوالے ہے ‘‘ دنیا میں کیا ہے ؟ یہاں جو کچھ ہے ، وہ درد ہے ، دکھ ہے ، چوٹ ہے ، تڑپ ہے ، زخم ہے ، ایک زخم بھر نہیں چکتا کہ دوسرا لگ جاتا ہے ، ساری زندگی چوٹ کو سہلاتے اور زخم پر ناکام مرہم رکھتے گذرجاتی ہے ، پھر دنیا کی یہ ناکامیاں ، نامرادیاں ، ناکارگیاں ، جب بارگاہِ الٰہی میں قبولیت پائیں گی ، تو انھیں ٹھیک عکس کردیا جائے گا ، اتنا بڑھایا جائے گا کہ یہ زخم خوردہ انسان ، یہ ناکام آدمی