محترم ومکرم ! اﷲ عافاکم وبارک فی عمرکم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
مزاجِ گرامی!
آپ کا کرم نامہ عزیزم مولوی ضیاء الحق سلّمہ کے نام آیا ، انھوں نے ملاحظہ کیلئے مجھے بھی دیا ، اس خط نے میرے دل میں درد کی ایک دنیا جگادی ۔ شرمندہ ہوں کہ آپ کو کوئی خط نہ لکھ سکا ، کوئی رابطہ نہ پیدا کرسکا ۔ بقرعید کے بعد ایک روز تھوڑی دیر کے لئے پھلواری شریف ، کربلا میں حاضری ہوئی تھی ، آپ کے بارے میں معلوم کیا ، کسی نے بتایا کہ آپ نے مکان بدل لیا ہے ، کسی طرح ٹیلیفون سے رابطہ ہوا ،تو اطلاع ملی کہ آپ موجود نہیں ہیں ، حسرتِ دید تھی ، وہ دل ہی میں رہ گئی ، اب آپ کا یہ خط پڑھ رہا ہوں ، اور دل کے ٹکڑے اڑنے کا تماشہ دیکھ رہا ہوں ، یا خود تماشا بن رہا ہوں ۔
’’ دیوانے دو ۔۔۔۔۔‘‘ اور ’’ دفتر گم گشتہ ‘‘ (۱)موصول ہوئی تھی ، چند مجلسوں میں پوری پڑھ لی ، اور محبت وانس کے اتھا ہ سمندر میں ڈوب ڈوب گیا ، جب ذرا کنارہ میسر آیا ، تو خیال ہوا کہ اس پر کچھ لکھوں ، مگر محبت ہی کا فرشتہ ہے جس نے مجھے گویا اُڑن کھٹولے پر بیٹھا رکھا ہے ، صبح کہیں ، شام کہیں ، دن کہیں ، رات کہیں ، اِدھر سے اُدھر مارا مارا پھرتا ہوں ۔ فرصت خیال ہی نہ رہی ، نہ قرطاس وقلم کی محفل جمی ، اور اب تو اس کا خیال بھی دل سے محو ہورہا تھا کہ اچانک آپ کے خط نے تازیانہ لگایا ۔ تبصرہ کیا لکھوں ، اس کی صلاحیت کہاں سے لاؤں ، قلم کی زبان سے آپ سے گفتگوہی کرلوں ، محبت کا چراغ آپ نے روشن کیا ہے ، اس سے اپنے خانۂ دل میں روشنی کرلوں ۔
آپ نے محبت اور درد کی صدا لگائی ۔ آپ نے اسے اپنی غزلوں میں ، نظموں میں ، نثری تحریروں میں عام کیا ہے ، کوئی اسے زبان سے مانے یا نہ مانے ، مگر دل پر